تصور کریں کہ اگلے بیس برس میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیائی ممالک کی اکثریتی آبادی موسمیاتی اثرات کی وجہ سے پریشان ہوگی۔ ایک طرف آلودہ ہوا ہے جس میں انسان مجبوراً سانس لے رہے ہیں تو دوسری طرف موسمیاتی اثرات ہیں‘ جن کی وجہ سے غذائی خودکفالت اور غذائی تحفظ متاثر ہیں اور یہ ایسے منفی عوامل ہیں جنہیں نہ تو کوئی ملک درست کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک ملک یا قوم کی کوششیں کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ جس کا عنوان ”صاف ہوا کیلئے جدوجہد: جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی اور عوامی صحت ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ایشیائی خطے عوامی صحت پر اثرات و بحران کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ 10جنوبی ایشیائی شہروں میں سے 9 میں ہوا کے خراب معیار (فضائی آلودگی) کی وجہ سے‘ سالانہ بیس لاکھ افراد قبل از وقت اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔فضائی آلودگی اور جنوب ایشائی ممالک کی بات کریں تو مالدیپ و سری لنکا سے لے کر نیپال‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ پاکستان اور بھوٹان زہریلی ہوا میں لپٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ ہوا کی یہ بدسلوکی ازخود نہیں بلکہ اِسکے اصل مجرم ہم انسان ہی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی بلکہ ہم زمین مخلوقات کی زندگیاں بھی خطرے سے دوچار کر رکھی ہیں۔ فضائی آلودگی ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتی ہے۔ اِس بارے میں ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ بھارت کی ریاست پنجاب میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کا تیس فیصد حصہ پاکستان کے صوبہ پنجاب اور بنگلہ دیش کے بڑے شہروں کو متاثر کر رہا ہے اِس لئے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں بلکہ اِس کے لئے پوری دنیا کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا پڑے گا۔ موسمیاتی و ماحولیاتی امور کے ماہر تجویز
کرتے ہیں کہ تحفظ ماحول اور فضائی آلودگی کی تطہیر کیلئے مشترکہ لائحہ عمل (روڈ میپ) کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماحول دوست ٹیکنالوجی کو صرف اپنی جغرافیائی حدود تک رکھنے کی بجائے اِسے ترقی پذیر ممالک میں تقسیم کرے جو ممالک مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ماحول دوست ٹیکنالوجی نہیں اپنا سکتے اُنہیں تجربات کے اشتراک و اطلاق سے ہم پلہ مضبوط بنایا جائے۔ اِس مرحلہ فکر پر ماحول دوست اقدامات کے لئے مشترک منصوبہ بندی اُور عملی اقدامات کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے‘پاکستان میں فضائی آلودگی کسی ایک صوبے یا شہر پنجاب و لاہور کا مسئلہ نہیں بلکہ پشاور (خیبر پختونخوا) سے کراچی (سندھ) تک ملک کے طول و عرض کی آب و ہوا متاثر ہے۔ صنعتوں‘ذرائع آمدورفت (ٹرانسپورٹ) سے خارج ہونے والا دھواں ہوا کے معیار کو متاثر کئے ہوئے ہے جبکہ اِن کی اصلاح کے لئے کوششیں اور عزم بیانات کی صورت صرف کاغذ پر ہی رہ جاتے ہیں۔ تحفظ ماحول کیلئے خیبرپختونخوا کو پنجاب میں کئے جانیوالے اقدامات پر نظر رکھنی چاہئے جیسا کہ سال 2017ء میں پنجاب نے ’اسموگ پالیسی (ایکشن پلان)‘ کا اعلان کیا اور اِسی پیمانے پر فضائی آلودگی کی جانچ پڑتال اور اِس کی شدت میں کمی بیشی کو فہرست کیا جاتا ہے۔ رواں برس پنجاب حکومت نے سموگ سے متاثرہ اضلاع کو ’آفت زدہ‘ قرار دیا اور تعلیمی اداروں کو 3 دن جبکہ نجی و سرکاری دفاتر کو ہفتہ وار 2 روز بند کرنے کا حکم دیا‘یہاں تک کہ کھانے پینے کی دکانیں بھی رات دس بجے تک بند کر دی جاتی ہیں تاکہ آمدورفت کم ہونے کی وجہ سے فضائی آلودگی کم ہو لیکن تاحال ایسا کوئی بھی جائزہ سامنے نہیں آیا ہے جس سے معلوم ہو کہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری اِن اقدامات سے فضائی آلودگی کس قدر کم ہوئی ہے‘اور مذکورہ ایکشن پلان کتنا مؤثر ثابت ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کی مذکورہ رپورٹ سے جو ایک چیز واضح طور پر سامنے آئی ہے تو وہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو کم از کم ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں میں ایک دوسرے سے غیرمشروط تعاون کی ضرورت ہے۔