(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کیلئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعداد و شمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
زندگی کی اِس بھاگ دو ڑ میں اب ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ شب و روز کے چنگل سے خود کو چھڑوا کر کھلی فضاؤں میں سانس لے سکیں ا ور آزادی سے زندگی اور اپنے بارے میں سوچ سکیں۔ زندگی کا پہیہ اسی طرح چل رہا ہے۔ میرے لئے تویہ بھی ایک نعمت ہے کہ میں زور لگا کر بے مصرف،مصروفیت کے حصار کو توڑ لیتا ہوں یا پھر یوں سمجھ لیں، مجھے جب کبھی فراغت ملتی ہے تو شہر کی اِس چکا چوند سے دُور مضافات کو نکل جاتا ہوں۔کسی درگاہ،خانقاہ یا فقیر،درویش کے ڈیرے کی چٹائیوں پر بیٹھ کر میری،اکثر ان سچے،کھرے اور مخلص افراد سے ملاقات ہوتی ہے جن میں اِس سائنسی دور میں بھی، ابھی اخلاص اور اقدار کی خوشبو پائی جاتی ہے۔گزشتہ روز جب سال کی آخری سانسیں چل رہی تھیں اور دوہزار سترہ کا سورج آنکھیں موند رہا تھا تو میں بستی محراب کے مر دِفقیر کے الاؤ کی حرارت کشید کر رہا تھا ”مچ“ کی صوفی کی درگاہوں اور بیٹھکوں میں اپنی اہمیت ہے درویشوں کے اس مچ پر اکثر آس پاس کی آبادی کے غریب،مسکین،سادہ دیہاتی اور کسان،بزرگ بیٹھے نظر آتے ہیں۔درویشوں کے ایسے ڈیروں پر جانے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی۔نا ہی ان کا کوئی دروازہ ہوتا ہے سو کوئی بھی جب جی چاہے وہاں جا سکتا ہے۔میں بھی ایک ایسی ہی بے تکلف محفل میں تھا۔جہاں دنیا جہان کے موضوع پر کوئی بھی بات کر سکتا ہے‘کسان اپنی فصلوں،مویشیوں،موسموں،بھاؤ تاؤ سے لے کر سیاسی سماجی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں‘میں بھی اپنی ذات کی بکل میں چپ چاپ سبھی کی سنتا رہتا ہوں۔میں یہاں کئی بار آچکا ہوں اور بیشتر بزرگوں سے متعارف ہوں‘ اصل میں تو”صاحب ِمچ“ سے انس و محبت مجھے یہاں تک کھینچ لاتی ہے‘ ان چٹائیوں پر بیٹھ کر مجھے تو بہت سکون ملتا ہے۔ کبھی کبھی یہاں کوئی قیمتی اور پتے کی بات بھی مل جاتی ہے۔ کچھ نہ سہی تو یہاں
کم از کم بندہ بوریت محسوس نہیں کرتا۔ آئیے آپ بھی یہاں ہونے والی ایک نشست میں شریک ہوجائیں،میری طرح بس سنتے جائیں اور جب جی چاہے چپکے سے اٹھ جائیں۔ لیجیے غور کیجیے:نئے سال کی آمد کے بارے میں ماسٹر کریم بخش کہہ رہے ہیں: ”وقت اِسی طرح گزر جاتاہے سال کے شروع ہونے یا ختم ہونے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔دعا کریں آنے والاوقت ہمارے لئے امن و سلامتی اور سکون لائے“ابھی وہ کچھ اور بھی کہتے کہ رفیق بھانبڑ نے اُن کی بات کاٹ دی اور اپنی کیسٹ لگا لی۔وہ اپنے اندرکے غصے کا اظہار کر رہا تھا، اُس کی باتوں سے بھلے کسی کو آگ لگے مگر وہ چپ نہیں رہتا،اپنے دل کی سنائے جاتا ہے، شاید اسی لئے اسے بھانبڑکے نام سے پکارا جاتا ہے‘رفیق بھانبڑ کی گاؤں میں آٹا پیسنے کی چکی ہے۔ تڑکے ہی یہاں آبیٹھتا ہے اور پھر بستی کے چراغ روشن ہوتے ہی وہ چکی بند کردیتا ہے اکثر اسی”مچ کچہری“ میں نظر آتا ہے۔بھانبڑ یوں مچ رہا تھا:”چھوڑیں ماسٹر جی! اتنی گہری باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، سکون اب کسی جگہ نہیں ہے۔ گھر میں مسائل باہر دکھ۔ٹیلی ویژ ن کھولو تو ”سیاست“ کا طوفان گرم ہوتا ہے‘ رات ایک بھائیا کہہ رہا تھا کہ آنے والا سال بہت اچھا ہو گا‘سارے کرپشن کرنیوالے سیاستدان جیلوں میں ہوں گے‘میں کہتا ہوں پھر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔وسو موچی،نذیر کوچوان یا مجھ سا ماڑا بندہ تو ہمیشہ اسی طرح رہتا ہے‘ہمارے حالات کبھی تبدیل نہیں ہونگے“۔”بالکل جی۔ بالکل“! وسّو موچی نے اپنا سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا: ”بھانبڑ بھرا کی باتیں کھری اور سچی ہیں۔بھاویں قاضی طارق لودھی کو غصہ آئے،سیا ست کرنے والے اپنے مفاد کیلئے اسمبلیوں میں جاتے ہیں، عام بندے کے بارے میں کون
سوچتا ہے‘ مہنگائی نے ہماری مت مار رکھی ہے۔پٹرول کتنا مہنگا ہو گیا ہے۔ حکومت میں اب تک کوئی ایسا مائی کا لال نہیں آیا جو مہنگائی کو کم کر سکے۔میرا والد بہشتی بتایاکرتا تھا کہ اس نے دو روپے فی کلو دیسی گھی بھی کھایا ہوا ہے‘کیا چنگا ویلا تھا ہر شے خالص مل جایا کرتی تھی‘اب تو کوئی شے خالص نہیں‘کیوں بھائی مجید بولو نا ں چپ کیوں ہو؟ او یار تمہاری بکری مر گئی تھی بڑا افسوس ہوا۔اب اس کا لیلا کیسے پالو گے؟ مجید نے مسکراتے ہوئے کہا: ”چاچا وسو! تو فکر نہ کر میں نے بکری کا بچہ بھینس کے نیچے چھوڑ دیا ہے ایک تھن کا دودھ بکری کا بچہ پیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ بھینس کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں‘اب محفل میں قہقہے گونج رہے تھے‘ فرید تیلی بولا: سائیں جی! سنا ہے آپ نے، مجید نے بکری کا بچہ بھینس کے دودھ پر لگا دیا ہے (ہاہا) سائیں مسکین نے ہنستے ہوئے کہا: ”تو کیا برا کیا ہے؟لیلے کی ماں جو مر گئی تھی۔مجید نے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے“یہ باتیں جاری تھیں کہ رجب آگیا۔اس کی آمد پر سبھی چہکنے لگے۔رجب اِس محفل کی رونق تھا۔وہ میاں محمد بخش ؒکاکلام ایسی پر سوز آواز میں گاتا کہ ”مچ“ بھی ”بھخ“ اٹھتا۔جیسے جیسے اندھیرا پھیل رہا تھا ”مچ کچہری“ شباب پر آرہی تھی۔کچھ دیر کو محفل میں سکوت سا طاری ہو گیا۔ پھراچانک میرانی کی آواز گونجی: ”یار کل عجیب واقعہ ہوا۔ہمارے گاؤں میں سیلاب آگیا‘ سیلاب؟ ایک کونے سے آواز آئی‘ن بادل برسات؟؟ میرانی بولا: ”بالکل سائیں! قریبی فارموں کی دوسو بھینسیں اکھٹی نہر میں آگھسی تھیں جیسے ہی وہ نہر میں اتریں تو نہر کا پانی احتجاجاً کناروں سے باہر نکل آیا۔اب خود ہی سوچو نہر کتنی چوڑی ہوتی ہے؟ نہر بھینسوں سے بھرتے ہی پانی گاؤں میں داخل ہو گیا۔پھر تو ماسٹر جی! باقاعدہ پولیس آگئی تھی۔کافی دیر لگی معاملہ سلجھانے میں۔“ سائیں مسکین نے کہا: ”چلو اب تو مسئلہ حل ہو گیا ہے ناں؟”جی“ میرانی نے کہا، اور پھر رجب کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ”یار کچھ سناؤ میں تو بڑی دیر بعدسائیں کی ”مچ کچہری“ میں آیا ہوں۔رجب نے گلا صاف کیا تو محفل پر سناٹا چھا گیا۔بس پھر کیا بتائیں، ساری ”مچ کچہری“سوز سے بھر گئی تھی۔