پاکستان کرکٹ ٹیم میں تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہے اور ایسا ہر اُس موقع پر ہوتا ہے جب قومی ٹیم کی ’انتہائی مایوس کن کارکردگی‘ سامنے آتی ہے گویا کہ ہمارے فیصلہ ساز اِس بات کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ پہلے قومی ٹیم کا خراب کھیل عالمی خبروں اور تجزئیوں کی زینت بنے تو اُس کے بعد ردوبدل کیا جائے گا اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ ردوبدل بھی فائن ٹیونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یعنی ہمیشہ آسان فیصلوں سے ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی جاتی ہے اور اِس مرتبہ بھی یہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔پاکستان کا دورہ کرنے والی مہمان برطانوی ٹیم کے ہاتھوں ”وائٹ واش“ کا ذائقہ انتہائی کڑوا ہے۔ برطانیہ ایسی پہلی ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کر چکی ہے جس نے پاکستان کی سرزمین (ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ) پر پاکستانی ٹیم کو تمام ٹیسٹ میچوں میں شکست دی۔ رمیز راجہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹانا اور سابق چیئرمین نجم سیٹھی کی سربراہی میں چودہ رکنی مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دینا جو ایک سو بیس دن تک پی سی بی کے معاملات چلائے گی ایسے اقدامات ہیں جو اس وقت اٹھائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم جو بذات خود ’پی سی بی‘ کے چیف پیٹرن ہیں‘ نے بورڈ کے 2019ء کے آئین کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔ انہوں نے 2014ء کا ’پی سی بی‘ آئین بحال کرنے کے لئے انتظامی کمیٹی کو مکمل ایگزیکٹو اختیارات دیئے ہیں۔ رواں ہفتے ’پی سی بی‘ کی مینجمنٹ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں پہلا بڑا قدم اٹھاتے ہوئے چیف سلیکٹر وسیم کو بھی برطرف کردیا گیا اور پی سی بی کی تمام کمیٹیاں بھی تحلیل کر دی گئیں ہیں۔ کیا نیا ’سیٹ اپ‘ کوئی ’اپ سیٹ‘ کرے گا؟ فی الوقت حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ’پی سی بی‘ انتظامیہ کی تبدیلی کا جشن منایا جا رہا ہے تاہم فیصلہ سازوں کو جاننا ہوگا کہ ان کا کام پہلے سے زیادہ مشکل ہے۔ حکومت کی جانب سے انہیں 2014ء کے آئین کی بحالی پر کام کرنے کا کہا گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بحالی سے ڈومیسٹک سیٹ اپ میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کی راہ ہموار ہوگی۔ ڈیپارٹمنٹل یعنی محکمہ جاتی کرکٹ پر یہ پابندی سابق دور حکومت میں لگائی گئی تھی۔ اُس وقت کے وزیراعظم چاہتے تھے کہ پاکستان آسٹریلیا کے ڈومیسٹک ماڈل پر عمل کرے جس میں صرف چھ صوبائی ٹیمیں بڑے مقابلوں میں حصہ لیں۔ اس منصوبے کو جوش و جذبے اور شور شرابے سے نافذ کیا گیا لیکن دوسری طرف ’سائیڈ ایفکٹ‘ یہ تھا کہ سینکڑوں کرکٹرز اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مینجمنٹ کمیٹی کو ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔ زیادہ تر اہم محکموں نے اپنی ٹیموں کو ختم کردیا ہے اور موجودہ معاشی مندی (کساد بازاری) کے دور میں بہت سے محکمے اپنی کرکٹ ٹیموں میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ بھی نہ ہوں۔ نجم سیٹھی کی تازہ دم کمان میں ’پی سی بی‘ کو قومی کرکٹ ٹیم کی گرتی ہوئی کارکردگی بالخصوص ریڈ بال فارمیٹ میں بھی کام کرنا ہوگا۔ پاکستان کو ہوم گراؤنڈ پر لگاتار چار ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ کوچز ثقلین مشتاق اور یوسف سمیت کھلاڑیوں اور آفیشلز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی ہے یہ ضروری ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں کھلاڑیوں کی مہارت کو تیز کرنے پر توجہ دی جائے اور نئے پی سی بی چیئرمین طویل دورانیے کے حوالے سے ایسی پالیسی اپنائے کہ جس کے ذریعے صرف ٹی ٹوئنٹی کو ہی مدنظر نہ رکھا جائے بلکہ سرخ بال سے کھیلے جانے والی کرکٹ کو بھی بھرپور توجہ دی جائے تاکہ آئندہ پھر ہوم گراؤنڈ پر ایسی ہزیمت کا سامنا نہ ہو جس میں کہ انگلینڈ کے ساتھ تین ٹیسٹ میچز میں ہار کی صورت میں سامنا ہوا ہے اور قومی ٹیم کی ٹیسٹ کرکٹ میں کمزوری کھل کر سامنے آئی ہے۔