جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے ایسا انسانو ں کی صلاحیتوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ جب انسان کوئی بھی تعلیم یا ہنر سیکھتا ہے تو کچھ عرصے تک یہ انسان ان سیکھی ہوئی مہارتوں کی بنیاد پر اپنے پیشوں میں نہ صرف کا میابیوں کے جھنڈے گاڑتا رہتا ہے بلکہ اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر عمل کے میدان میں آگے بھی بڑھتا رہتا ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے تو یہی انسان سیکھے ہوئے علوم اور ہنرکو آہستہ آہستہ بھلانا شروع کر دیتا ہے بلکہ بسا اوقات ان شعبوں میں نت نئے علوم اور تجربات سامنے آنے کے بعد انسان کی کارکردگی اور نتائج پر بھی فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات انسان خودکو اس نظام جس میں وہ کام کر رہا ہوتا ہے ایک ناکارہ پر زہ سمجھنے لگتا ہے جس کے اثرات اگر ایک طرف اس فرد کی کارکردگی پر پڑنے لگتے ہیں تو دوسری جانب جب کسی ادارے میں ان ناکارہ اور زنگ آلود پرزوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تو اس کا منفی اثر اس ادارے کی ناقص کارکردگی کی صورت میں بھی سامنے آنالگتا ہے۔ ایسے میں جن اداروں میں اس صورتحال کا ادراک جتنا جلدی ہوجاتا ہے وہ ادارے اس سے پہلے کہ اس کے تمام کل پرزے زنگ آلود ہوکر ناکارہ ہو جائیں ان پرزوں کے اصلاح احوال اور ان کا زنگ دور کرنے کے لئے مارکیٹ میں دستیاب طورطریقے آزمانے میں دیر نہیں لگاتے اور اس ضمن میں جتنا جلدی عملی اقدامات اٹھائے جائیں تو اتنا ہی اس مسئلے پر جلدی قابو پا لیا جا تا ہے اور وہی ادارے جو کل تک خسارے کے شکار ہوتے ہیں وہ دیکھتے ہی دیکھتے منافع بخش اداروں کا روپ دھارلیتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں یہ طریقہ کار عام ہے لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ا بھی یہ کلچر عام نہیں ہو ا ہے اور اس کا خمیازہ ہمارے اچھے بھلے منافع بخش اداروں کے مسلسل خسارے میں جانے کی صورت میں بر آمد ہو رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ان قومی اداروں کے زوال پذیر ہونے کی کئی دیگر وجوہات بھی ہونگی لیکن اس بات سے شاید کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوگا کہ ان اداروں کے مطلوبہ نتائج نہ دینے کی ایک بڑی وجہ ان اداروں میں اوپر سے نیچے تک کام کرنے والے اکثر افراد کی صلاحیتوں کا زنگ آلود ہونا ہے۔ اس پہلوسے قطع نظر ہمارے ہاں اداروں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی بھی ہے جس میں ملازمت کے لئے تعلیمی قابلیت اور بسااوقات تجربے کے علاوہ اور کسی مہارت کے سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔اس لئے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً اداروں میں سٹاف کیلئے ریفریشر کورسز کا اہتمام ہو تاکہ سٹاف کی مہارت میں جدت آئے۔دراصل ہمیں یہ کالم خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کے اس مدبرانہ فیصلے کے تناظر میں لکھنا پڑا ہے جسکے تحت انہوں نے ایک بار پھر صوبے کی تمام پبلک سیکٹر جامعات پر سبقت لیجاتے ہوئے مختلف اداروں اور شعبوں کے سربراہان (بی پی ایس20) سے لیکر اسسٹنٹس، جونیئرکلرکس حتیٰ کہ ریسپشنسٹ اور ٹیلی فون آپریٹرز (بی پی ایس5) تک کے تمام انتظامی سٹاف کو پانچ الگ الگ گروپوں میں پراونشل سروسز اکیڈمی برائے دیہی ترقی کے تعاون سے چار روزہ ریفریشر کورس سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے کے ایم یو کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم گنڈاپور کی سربراہی میں یونیورسٹی اور جملہ سٹاف کودرکارٹریننگ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک خصوصی کورس جس میں آفس اینڈ آرگنائزیشن منیجمنٹ،ایموشنل انٹیلی جنس اینڈ پرسنالٹی ڈویلپمنٹ،سٹریس اینڈ اینگرمنیجمنٹ،لیڈر شپ سکلز،ٹیم بلڈنگ اور ٹائم منیجمنٹ سکلز جیسے موضوعات شامل ہیں ڈیزائن کیا گیا جسے اکثر شرکاء نے ایک کامیاب تجربہ اور دیگر جامعات کے لئے بھی ایک بہترین ماڈل قرار دیا ہے لہٰذا توقع ہے کہ اس تجربے سے جہاں سٹاف کی انفرادی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگاوہاں اس سے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں بہترین نتائج مثالی سروس ڈیلیوری کی صورت میں بھی سامنے آئیں گے۔