سوچنا بھی تو ایک کام ہے۔ مگر یہ جتنا آسان لگتا ہے اس سے کہیں زیادہ گراں تر ہے۔کیونکہ جب ہم سوچتے نہیں اور ہماری سوچ نہیں بدلتی توہم خود کیسے بدلیں گے۔ ہم اپنے معاشرے کیونکر بدل سکیں گے۔ساری ترقیاں تو نئی سوچ کی محتاج ہیں۔اگر سوچ نہ ہوگی تو کیا ترقی ہوگی اور کیا خاک ترقی ممکن ہے۔دانشور کتنے آئے اور خاص طور پر ہمارے ہاں توبس ضائع ہی ہو گئے۔ کیونکہ ایجادات و ترقی سب کچھ سوچنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ہم کچھ ایجاد نہیں کر پارہے۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سوچ نہیں رہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم جس زاویہ سے سوچتے ہیں وہ دوسروں کے راستے محدود کرنے کے بارے میں ہے کہ جو ہم سے بعد میں آئے اور ہم سے زیادہ اوپر کیوں جا رہے ہیں۔محسن نقوی نے کہا ہے ”ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن۔ کہ دیکھنا ہی نہیں ہم نے سوچنا بھی ہے“۔ہم تو یہاں وہاں صرف دیکھتے ہوئے ہی گزر جاتے ہیں۔مگر کسی نظارے پر غور نہیں کرتے۔تدبر فکر کا رجحان ہم میں موجود جو نہیں ہے۔جن لوگوں نے سوچا ہے فکر سے کام لیا وہ آج پوری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔اپنی ایجاد کردہ نت نئی مشینوں اور الیکٹرانکس کی اشیاء کے ذریعے انھو ں نے پوری دنیا کی معیشت کو نکیل ڈال رکھی ہے۔سوچ کے حوالے سے مجیدامجدکی نظم ”توسیعِ شہر“ میں درختوں کو نہ کاٹنے کی سوچ موجود ہے۔درختوں کو نہ کاٹو یہ اب بھی اس دور میں ایک نئی سوچ ہے۔جس پر عمل تو کیا خاک ہوگاایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے ہیں۔اس خیال پر کوئی سوچتا بھی نہیں۔مگر اس زمانے میں بھی کہ جب یہ شاعرزندہ تھے یہ نئی سوچ تھی اور اب بھی ہے۔انھوں نے کہا”ا س مقتل میں صرف ایک میری سوچ لہکتی ڈال۔آج سے قریباً ساٹھ سال پہلے انھوں نے جو سوچ دی وہ تو آج بھی نئی نویلی ہے اور اجنبی ہے۔جس پرعمل کرنا یا عمل درآمدکروانا ایک جان جوکھم کا کام ہے۔مگرسوچنا شاید دانشوروں کے لئے ہے اور یہ شاعروں کا ورثہ ہے۔پھر سوچنا غیر اقوام کی روزمرہ کی عام شام سی عادات میں شامل ہے۔ ہم میں اپنی سوچ نہیں پیدا ہوتی۔کیونکہ اس زمین میں سوچ کا پودا نہیں اُگتا۔ہمارے آباؤ اجداد سے مغربی لوگوں نے سائنس لی اورعربی سے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کی اور وہاں ہمارے باپ دادا کی میراث سے کام لیا جاتا ہے۔حالانکہ یہ تو فرض ہمارا تھا۔مگرہم نے اس مشعل کو ہاتھ سے جھٹک دیاہے جو علم کی شمع ہمیں تھمادی گئی تھی۔ہم نے اس کو تیز ہوا کے مقابل لا کھڑا کیااور اس کے شعلے کو بجھنے دیا۔