پاکستان کے آئین میں لازم قرار دیا گیا ہے کہ صوبے اپنے اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کریں گے۔ اختیارات کی اِس منتقلی کے درپردہ منطق (دلیل) یہ ہے کہ عوام کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل ہونے چاہئیں اور عوام کے نمائندے عوام کے جس قدر قریب رہیں گے اتنی ہی جمہوریت مضبوط ہوگی۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ قانون ساز ایوانوں کے اراکین اور بلدیاتی اداروں کے اراکین ملک و قوم کی الگ الگ ضروریات پورا کرتے ہیں اُور یہ الگ الگ نمائندگی کا حق ادا کرتے ہیں اِس لئے اِن دونوں کی ضرورت و اہمیت مسلمہ ہے لیکن بدقسمتی سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا عمل جس قدر تیز اور موثٖر ہونا چاہئے تھا اس طرح نہیں اور اگرچہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا ہے لیکن اُنہیں ترقیاتی فنڈز میں سے خاطرخواہ مالی وسائل فراہم نہیں کئے جاتے اور نتیجہ عوامی مسائل کی صورت میں سامنے آتا ہے جس سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہوتا ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاقی دارالحکومت کے علاقے میں یونین کونسلوں کی تعداد میں اضافے کا ترمیمی مسودہئ قانون (بل) پیش کیا گیا جس کے لئے خصوصی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔ قبل ازیں رواں ماہ (دسمبر دوہزاربائیس) کے آخر پر اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونا تھا لیکن اب آئین میں ترمیمی کوشش کی وجہ سے اِن انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان کو اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا کاریکارڈ بہتر ہے اور یہاں پر انہوں نے دوسرے صوبوں کیلئے کئی مثالیں قائم کی ہیں۔ دوسری طرف پنجاب اور سندھ دونوں ہی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے سے اِس انتخابی عمل کو مؤخر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس میں حلقہ بندیوں سے لے کر بیلٹ پیپرز کی چھپائی تک اور انتخابی عمل کو سیکورٹی فراہم کرنے تک کے عوامل شامل ہیں۔ ضروری ہے کہ اس حقیت کو تسلیم کیا جائے کہ بلدیاتی ادارے شہری مسائل کے حل کے لئے ضروری ہیں۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اُور سینیٹرز کسی حلقے میں تعمیر و ترقی اور سہولیات جیسا کہ پینے کے پانی کی فراہمی یا نکاسیئ آب جیسے امور و معاملات کی خاطرخواہ خوش اسلوبی سے دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ ایسے تمام حلقے اور شہر جہاں بلدیاتی نظام خاطر خواہ فعال نہیں ہوتا وہاں کے رہنے والوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات حائل رہتی ہیں۔ یقینی طور پر ایک ایسی صورتحال میں کہ جہاں مقامی حکومتوں کی اشد ضرورت ہے وہاں صوبوں اور شہروں و دیہی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد ہی مسائل کا فوری و پائیدار حل ثابت ہو سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ صوبوں میں بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور سرگرم ہونے سے محروم رکھا جا رہا ہے اور مقامی حکومتوں کے فقدان نے وہاں پر گورننس (طرز حکمرانی کو شدید) نقصان پہنچایا ہے کیونکہ جمہوریت صرف اعلیٰ و بالا ہی نہیں بلکہ زیریں درجے پر بھی عوام کے مسائل کا حل پیش کرتی ہے لہٰذا اِس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بلدیاتی نظام تسلسل پورے ملک میں قائم و جاری رہے‘ اِس میں خلل نہ پڑے اور اِس نظام کو سیاسی نظریات اور تعلقات سے بھی بالاتر رکھنے کی ضرورت ہے۔دیکھا جائے تو بلدیاتی ادارے کسی بھی ملک میں زیرین سطح پر عوام کو سہولیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور کئی ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط بنیادوں پرقائم ہے اور وہاں پر زیادہ تر عوامی خدمت کے امور انہی اداروں کے ذریعے سر انجام دئیے جاتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی ادارے عوام کو سہولیات اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تاہم اس کے لئے کہ مقامی حکومتوں کا ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو اور باقاعدگی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کا عمل جاری رہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی قیادت بھی بلدیاتی اداروں سے سامنے آتی ہے اس کی بہترین مثال ترکی ہے جہاں پر مقامی حکومتوں سے جو قائدین سامنے آئے انہوں نے بین الاقوامی سطح پر نام کمایا ہمارے ہاں بھی اگر بلدیاتی اداروں کو منظم اور مضبوط کیا جائے تو اس سے سیاسی کارکنوں کی تربیت کا کام کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ نرسری ہے جہاں سے سیاسی کارکن بہت کچھ سیکھ کر ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔