وسائل اور مسائل

ہمارے معاشرے میں دکھ زیادہ ہیں خوشیاں کم ہیں۔ سیلاب سب کچھ نہیں تو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے گیا ہے۔ہمارے ہاں انسانیت مزید دکھی ہوگئی۔ارضِ وطن کے ساتھ بہت سے ممالک کی ہمدردی ہے۔جو کچھ نہیں بھی کرسکے انھوں نے سیلاب زدگان کی دل جوئی کی۔جو کچھ کر سکتے تھے انھوں نے اربوں کھربوں بھیج دیئے۔ مگر وہ رقم نظر نہیں آتی۔اس لئے کہ اُونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔ یہاں تو جتنی زیادہ رقم بھیجی جائے اتنا کم ہے۔پانی ہے کہ آتو گیا مگر اب اسے نکالے کون۔ کیونکہ یہ ایک ریلے کی شکل میں آیا اور بستیوں کو بہا کر لے گیا۔امداد ملی کہ نئے گھر بنیں گے۔مگر بنانے والا اپنی ایک بچی کے ساتھ مل کر گرے پڑے اپنے مکان کی دیواروں کو نئے سرے سے اٹھا رہا تھا۔ ان میدانی علاقوں میں مہینوں سے پانی کھڑا ہے۔یہ پانی کسی دریا میں بہہ کر آتا تو دریا کی گزر گاہ کے ساتھ آگے کو نکل جاتا۔یہ تو میدانوں اور آبادیوں میں آیااور آکر رک گیا۔ اب تک وہیں کھڑا ہے۔یہ تو جب گرمی کا موسم آئے گا تو شاید وہ پانی سُوکھ جائے۔ورنہ تو اس کی نکاسی کا نہ تو کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی نکاسی ہو سکتی ہے۔ایسے میں کہ باہر سے بطور ِ امداد رقوم بھیجی گئی ہیں۔ مگر پانی نے اتنی خرابی کر دی کہ مہینوں لگ جائیں گے۔ دیس میں قدرتی آفات آئیں۔جیسے زلزلہ کہ جس میں ہزاروں لوگ لقمہ ئ اجل بنے۔مگر وہ زخم جو ہماری معاشرت نے سینے پہ سہا ابھی تک بھرا نہیں ہے‘وپرسے ایک سماوی آفت کا سامنا ہے‘ اصل میں ہمارے ہاں اتنی خرابیاں ہیں پھروافر ہیں کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم ان سے نپٹ سکیں‘ اگر وسائل ہیں تو ان کو بروئے کار لانا مشکل ہے۔ہمارے ہاں کوئلہ کی وافر مقدار موجود ہے۔ اتنی کہ صرف کوئلہ ہی کی وجہ سے ملک خوشحال ہو سکتا ہے۔مگر اس کوئلہ کو نکالنا اور استعمال میں لانا بہت بھاری اور بڑی رقوم کے ہوتے سوتے ممکن ہے۔ وگرنہ تو یہ قدرتی خزانہ یونہی بیکار پڑا رہے گا۔ بھاری مشینری چاہئے مزدوروں کی بہت بڑی کھیپ درکار ہے۔باہر ملکوں میں اگر چھپے ہوئے خزانے ہیں تو ان کو نکال باہر کر کے مشینوں کے سہارے عام پبلک تک پہنچانا آسان ہے‘کیونکہ ان کے پاس رقوم کی ترسیل خوب فراواں ہے۔مگر ہمارے یہاں معاملہ بہت مشکلات کا شکار ہے‘ ہمارے ہاں وسائل کی کمی تو نہیں مگر ان کو تلاش کرنے پربھی بہت اخراجات آتے ہیں۔جن کے ہم فی الحال متحمل نہیں ہو سکتے‘ہماری درآمدات بہت زیادہ ہیں‘ جن کی وجہ سے ہمارے سالانہ اربوں ڈالر تو باہر بھیجے جاتے ہیں‘سامان منگوایا جاتا ہے‘ قرضوں کی ادائیگی کیلئے بیرون ممالک سے مزید رقم مانگنا پڑتی ہے‘ یعنی ہمیں کسی کل قرار نہیں۔ ہماری کوئی کل سیدھی نہیں‘ اسیلئے جتنی امداد بھی موصول ہو اپنے مسائل کے حل کیلئے خرچ ہو کر بھی ہمیں دستِ طلب دراز کرنا پڑتا ہے۔‘جتنے سکول ہوں کم ہیں جتنے ہسپتال ہوں اتنے اور درکار ہیں جتنے کالج اور یونیورسٹیاں ہوں گی کم پڑیں گی۔جہاں یہ حال ہو وہاں گرتی ہوئی معیشت کو سہارادینا بہت محنت طلب کام ہے‘مگر ایسا نہیں کہ ناممکن ہے سب کچھ ہو سکتا ہے‘مگر اس کیلئے بہت کام کرنا ہوگا۔بہت زیادہ ہاتھ پاؤں مارنا ہوں گے تب جا کر کہیں سکھ کا سانس میسر آسکتا ہے‘وگرنہ گرتی ہوئی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع دینا خودہمارے بس میں ہو کر بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ہماری نوجوان نسل موبائل میں گھسی ہوئی ہے۔ہمیں اپنی تباہ حالی کا احساس نہیں۔غلام اسحاق خان وزیرِ مالیات کے زمانے میں ہم چائناکو قرض دینے کی صورت حال کو ترتیب دینے میں ایک میٹنگ آراستہ کر رہے تھے۔ کبھی جو قرض دیتے تھے وہ ہاتھ اب خود اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے۔ایک دوسرے کی مددہی سے زندگی آگے کو رواں ہو سکی ہے۔ہم آگے خود افغانستان کو قرضہ اور امداد میں اچھی معاونت کرتے ہیں یونہی تویہ قافلہ رواں دواں ہے‘ورنہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے تو بس گئے‘ہمارے نوجوانوں کو اپنی راہیں درست کرنا ہوں گی‘میدانِ عمل میں سامنے آنا ہوگا‘فضول قسم کی نشہ بازی اور بیکار مشاغل سے دست کش ہونا ہوگا‘پنی ذمہ داری کااحساس کرناہوگا۔تعلیم کے میدان میں ہم نے کارنامے سر انجام دیناہوں گے۔تب کہیں جاکر ہماری ڈولتی ہوئی کشتی کنارے سے لگ سکتی ہے۔