خوراک کی کمی کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟

عالمی منظرنامے پر یوں تو بہت سارے مسائل ہیں تاہم ان میں سے اگر کوئی مسئلہ زیادہ توجہ طلب ہے تو وہ غذائی کمی ہے۔ جس کا شکار دنیا کے زیادہ تر ممالک نظر آرہے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف حل ماہرین کے مد نظر ہیں ان میں سے ایک ہائبرڈ فصلیں ہیں۔امریکی کسانوں کو گندم کی ایک ایسی نئی قسم تک رسائی حاصل ہونے لگی ہے، جو زرعی شعبے کی ایک بہت بڑی کمپنی سِنجینٹا نے تیار کی ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق جینیاتی تبدیلیوں کے بغیر تیار کی گئی اس گندم کی مدد سے خوراک کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔کرہ ارض پر انسانی آبادی میں مسلسل تیز رفتار اضافے اور اہم زرعی اجناس کی ترسیل میں کمی کے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے زرعی اجناس کے بیج تیار کرنے والی دنیا کی بڑی کمپنیاں ایسی اقسام کی تیاری میں مصروف ہیں، جن سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔سِنجینٹا (Syngenta)  کا شمار دنیا کی بیج تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے اور یہ کمپنی چین کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی کی طرف سے اگلے سال پانچ ہزار ایکڑ سے لے کر سات ہزار ایکٹر رقبے تک گندم کی ایسی نئی قسم کاشت کی جائے گی، جو ہائبرڈ گندم کہلاتی ہے۔ یہ رقبہ امریکہ میں گندم کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والے مجموعی رقبے کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے۔اس کے علاوہ جرمن کمپنیاں باسف ایس ای (BASF SE) اور بائر اے جی (Bayer AG) بھی اس تیاری میں ہیں کہ رواں دہائی کے اختتام تک ہائبرڈ گندم کی اپنی اقسام متعارف کرا سکیں۔زرعی تحقیق کرنے والے ماہرین ہائبرڈ گندم اس طرح تیار کرتے ہیں کہ وہ عام گندم کے پودوں کی اپنی زیرہ پوشی کرنے کی قدرتی صلاحیت اس طرح ختم کر دیتے ہیں کہ کھیتوں میں مادہ پودوں کی زیرہ پوشی ایک دوسری قسم کے نر پودوں سے کی جاتی ہے۔ اس طرح گندم کا جو نیا اور منفرد بیج اس زرعی جنس کی دو مختلف انواع کے اختلاط سے تیار ہوتا ہے، وہ ہائبرڈ کہلاتا ہے۔یوں تیار کیے جانے والے بیج گندم کی دو مختلف اقسام کے امتزاج کے باعث نہ صرف زیادہ پیداوار دیتے ہیں بلکہ ان میں اپنی پچھلی نباتاتی نسل کے مقابلے میں ناموافق ماحولیاتی اور موسمیاتی حالات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔کسی بھی زرعی جنس کی ہائبرڈ قسم تیار کرنے 
کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دو مختلف نباتاتی انواع کی جملہ مثبت خصوصیات یکجا کر دی جاتی ہیں۔عالمی سطح پر زرعی اجناس اور اشیائے خوراک کی غیر مساوی تقسیم آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جبکہ کروڑوں انسانوں کو بھوک اور کم خوراکی کا سامنا ہے۔دنیا کے مختلف ممالک میں کسان کم از کم مکئی کی ہائبرڈ قسم تو 1930 کی دہائی سے اُگا رہے ہیں۔ یوں اس فصل کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کے مختلف نباتاتی بیماریوں یا نقصان دہ کیڑوں کا شکار ہو جانے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اب تک جن سبزیوں کی ہائبرڈ اقسام اُگانے کا طریقہ بھی رائج ہو چکا ہے، ان میں پیاز، پالک اور ٹماٹر شامل ہیں۔ہائبرڈ گندم کے بیج تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کام کے لیے ہائبرڈ مکئی اور ہائبرڈ جو تیار کرنے کے حوالے سے اپنے اسی تجربے کو استعمال کیا، جس کے نتیجے میں 1930کی دہائی کے مقابلے میں 1990 کے عشرے تک مکئی کی پیداوار میں 600 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔امریکی محکمہ زراعت کے مطابق مکئی کی پیداوار میں چھ گنا تک کا حیران کن اضافہ جزوی طور پر ہائبرڈ مکئی تیار کرنے سے بھی ممکن ہوا جبکہ اسی عرصے میں گندم کی پیداوار میں بھی تقریبا اڑھائی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔مکئی اور جو کے مقابلے میں ہائبرڈ گندم کے عالمی منڈیوں میں تجارت کے لیے پہنچنے میں مقابلتا کافی تاخیر اس لیے ہوئی کہ ہائبرڈ گندم کی تیاری زیادہ پیچیدہ اور کافی مہنگا عمل ہے۔ہائبرڈ فصلوں کی تیاری کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے لیے متعلقہ فصل کے پودوں میں کوئی جینیاتی تبدیلیاں نہیں کی جاتیں۔ جینیاتی تبدیلیوں کے بعد تیار کی جانے والی مکئی اور سویا کی اقسام 1996 میں تیار کی گئی تھیں اور انہیں جانوروں کی خوراک، حیاتیاتی ایندھن اور کوکنگ آئل جیسی مصنوعات کی 
تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ زرعی اقسام دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ، برازیل اور اجنٹائن میں وسیع تر رقبے پر اُگائی جانے لگی تھیں۔جینیاتی تبدیلیوں والی گندم کی وسیع تر تجارتی پیمانے پر کاشت آج تک اس لئے رواج نہ پا سکی کہ اس بارے میں صارفین میں کئی طرح کے خدشات پائے جاتے تھے۔ خاص طور پر یہ خدشات کہ ایسی گندم کے استعمال سے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی زرعی اجناس میں سے ایک ہے، عام انسانوں میں ممکنہ طور پر خاص طرح کی الرجی اور دیگر طبی مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ارجنٹائن کی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی بائیو سیرسجینیاتی طور پر ترمیم شدہ ایسی گندم کی تیاری پر کام کر رہی ہے، جو خاص طور پر خشک سالی کے اثرات کا بہت اچھی طرح مقابلہ کر سکے گی۔ اس کمپنی کا دعوی ہے کہ وقت گزرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے شدید ہوتے جانے کے ساتھ ساتھ عام صارفین میں جینیاتی تبدیلیوں والی فصلوں کی تجارتی پیداوار کو قبول کرتے جانے کا رجحان بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔دوسری طرف کئی دیگر کمپنیاں مختلف جغرافیائی حالات کے لیے مختلف اقسام کی بائبرڈ گندم کی تیاری پر بھی مسلسل کام کر رہی ہیں۔ جرمن کمپنی باسف کا کہنا ہے کہ وہ گندم کی جو ہائبرڈ قسم تیار کر رہی ہے، اس کی خاص بات ایک نباتاتی بیماری کا کامیابی سے مقابلہ کرنا ہے، ہائبرڈ گندم کی تیاری کے سلسلے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اتنی پیش رفت بہرحال دیکھنے میں آ چکی ہے کہ اب زرعی سائنس دان مستقبل قریب کے حوالے سے کافی پرامید ہیں۔بہت بڑی جرمن ٹیکنالوجی کمپنی باسف کے زرعی مسائل کا حل تلاش کرنے والے ذیلی ادارے باسف اے ایس کے تحقیق و ترقی کے شعبے کے سربراہ پیٹر ایکیس کہتے ہیں، کہ ہائبرڈ فصلیں تیار کرنا ایک بہت ہی پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے۔ تاہم اس شعبے میں جینیاتی سائنس اور بریڈنگ ٹیکنالوجیز کے شعبوں میں حالیہ برسوں میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ اب بڑے بڑے چیلنجز پر قابو پا لینا ممکن نظر آنے لگا ہے‘پاکستان بھی ان ممالک میں سے جہاں غذائی قلت کا مسئلہ موجود ہے اور اس کو حل کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ ضروری ہے جس میں ہائبرڈ فصل بھی شامل ہے۔