اگست دوہزاراکیس کے وسط میں انتقال اقتدار کے بعد سے افغانستان کو جن داخلی مسائل اور بحرانوں کا سامنا ہے اُنہیں حل کرنے کی بجائے اضافے کی کوششیں زیادہ دیکھنے میں آ رہی ہیں جو خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہے لیکن ایک خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کی داخلی و معاشی سلامتی خطرات سے دوچار ہے! جنگ سے تباہ حال ملک کے ذخائر منجمد کرنے کا دباؤ بھی پاکستان پر پڑا ہے اور پاکستان سے افغانستان کو ڈالروں کا مسلسل اخراج ہو رہا ہے اور اگرچہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کی کرنسی مارکیٹ پاکستان پر انحصار کر رہی ہے لیکن حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان سے ڈالروں کی افغانستان منتقلی نے صورتحال کو زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔ پشاور کی ضرب صرافہ مارکیٹ کے ایک کرنسی ڈیلر کے بقول ”افغانستان ڈالر جانے کی بنیادی وجہ پشاور کی کرنسی مارکیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کرنیو الے افغان کرنسی ڈیلر ہیں جوکسی پاکستانی ڈیلر کی وساطت سے کاروبار کرتے ہیں جبکہ چند ایک ایسے بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کی شہریت کی دستاویزات حاصل کر رکھی ہیں اور خود کا تعلق آبائی طور پر قبائلی اضلاع سے بتاتے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت افغانستان ڈالروں کی غیرقانونی ترسیل روکنا چاہتی ہے تو اِس کے لئے ابتداء ان کرنسی ڈیلروں کے خلاف کریک ڈاؤن سے کرنا ہوگا۔افغانستان میں امریکی ڈالر (گرین بیک) کی طلب اور منہ مانگی قیمت کی وجہ سے پاکستان سے ڈالروں کا غیر قانونی اخراج ہو رہا ہے جس کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں جیسا کہ تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور کثیر الجہتی اور دوطرفہ زرمبادلہ کی آمد میں کمی وغیرہ کے باعث پاکستان کے غیر ملکی کرنسی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور یہ کمی اِس قدر ہو چکی ہے کہ بائیس کروڑ آبادی کے ملک کے لئے بائیس روز تک درآمدات خریدنے کے لئے بھی زرمبادلہ کے ذخائر نہیں رہے۔ 28 دسمبر کے روز وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ایک مرتبہ پھر قوم کو یقین دلایا کہ ملک کو دیوالیہ ہونے نہیں دیا جائے گا اور بہت جلد معاشی بحران کے حل کی صورت نکال لی جائے گی لیکن جب تک افغانستان میں امریکی ڈالروں کا بلا تعطل بہاؤ نہیں رکے گا‘ اُس وقت تک پاکستان کے معاشی بحران میں کمی نہیں آ سکتی۔ حالیہ چند مہینوں کے دوران حکومت نے جن معاشی اصلاحات کا اعلان کیا ہے اُن میں افغانوں کو پانچ لاکھ روپے سے زائد مالیت کی رقم رکھنے کی اجازت نہیں اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف انسداد منی لانڈرنگ قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا لیکن کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں جس میں کسی افغان کرنسی ڈیلر یا اُس کی معاونت و سہولت کاری کرنے والے مقامی کرنسی ڈیلر کو گرفتار کیا جا سکا ہو۔ اِس صورتحال میں سخت گیر مالی نظم و ضبط عملاً لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی اصلاحات کے سلسلے میں دوسرا اقدام سٹیٹ بینک کی جانب سے مسافروں کے لئے سالانہ ذاتی زرمبادلہ الاؤنس کو چھ ہزار ڈالر تک محدود کرنا ہے لیکن یہ حربہ ڈالروں کا غیر قانونی بہاؤ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔پاکستان سے ڈالروں کا غیر قانونی اخراج ان بہت سے عوامل میں سے ایک ہے جس نے حالیہ مہینوں میں پاکستان کی شرح مبادلہ کو بے حد دباؤ (مشکل) میں ڈالا ہے اور کرنسی مارکیٹ اِس کی وجہ سے بے ترتیبی کا شکار (دوچار) ہے‘ جس کے نتیجے میں انٹربینک اور اوپن مارکیٹوں میں مختلف شرح تبادلہ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان ڈالروں کا غیر قانونی بہاؤ روکنے کی ضرورت پر کوئی دو رائے نہیں تاہم ڈالر کا یہ اخراج صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ حال ہی میں خلیج جانے والے تین ایسے مسافروں کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے میں ساٹھ ہزار امریکی ڈالر تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ معمولی رقم نہیں اور نہ ہی کرنسی کسی ملک منتقل کرنے کا عمومی رجحان ہے۔ وقت ہے کہ پاکستان اپنی زمینی سرحدوں اور بندرگاہوں کے کنٹرول پر نظرثانی کرے اور اِنہیں مضبوط بنانے کے لئے ٹیکنالوجی و مصنوعی ذہانت پر منحصر آلات کا استعمال کیا جائے جیسا کہ عالمی سطح پر ہوتا ہے تاکہ ملک میں ڈالر کی بلند پرواز کو معمول پر لایا جا سکے اور ایک ایسی غیریقینی کی صورتحال کو اُمید سے بدلا جا سکے جو پاکستان کی معیشت کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔