وہ کہتے ہیں آپ اپنے کالموں کو پشاورکے شادی بیاہوں تک محدود کر دیں۔کیونکہ آپ کی یہ تحریریں خوانچہ فنا قسم کے آرٹیکل ہوتے ہیں۔ جن کوپڑھ کربہت لطف محسوس ہوتا ہے۔بلکہ اندرونِ شہر توکیا درونِ شہر اور برونِ ملک بھی دور دیس میں رہنے والے پشوری گاہے تعریف کے ڈونگرے بھیجتے ہیں۔کیونکہ شہر میں ایسی روایتی تقریبات کے احوال جان کران کو بہت خوشی ہوتی ہے۔پشاور کی وہ تہذیب جو آج سے چالیس سال پہلے تک تھی وہ تو آہستہ آہستہ سلیٹ پھر لکھے گئے سوال کی طرح مٹتی جا رہی ہے۔مگر اس کی یاد تو باقی ہے۔پشاوری لوگ موتیوں کی مالا کی مانند دھاگے کے جداہوجانے سے آپس میں اک دوجے سے دور ہو گئے ہیں۔موتی بکھرجائیں تو کوئی کہا ں گرا کوئی کہاں گراوالی بات ہے۔مگر ایسے میں کہیں شادی بیاہ میں خوشیاں جھنا اٹھیں ڈھولک ٹھنک اٹھے اور سہرا بندی کے وقت ڈھول پہ چوٹ لگے تو دھم دھما دم کی آوازیں کانوں میں شور کا تاثر نہیں دیتیں الٹا کانو ں میں یہ دمدمہ کی آواز عجیب ساسرور گھول کر انڈیلنے لگتی ہیں۔وہ ساراماضی تڑاخ سے اندھیرے کا فریم چیر کرسامنے آکھڑاہوتا ہے۔وہ گذرے دن رات شادی بیاہوں کی رسومات اک نئے سانچے ڈھل کر حال کے دریچوں سے جھانکنے لگتے ہیں۔پہلے گھرکے صحن تھے اور باجے گاجے تھے سہرابندی کی رسمیں تھیں اب شادی ہال ہیں اور وہ ماضی کی وہ رخشندہ سامانی نہیں۔مگر اتنا تو ہے کہ شادی ہالوں میں جو پشوری اکٹھے ہو تے ہیں اور کھانے کے موقع پر آپس میں گپ شپ لڑاتے ہیں وہی غنیمت ہے۔پھر شادی کااکٹھ جب نہیں رہتاتو یہ لوگ پھر کہاں ملتے ہیں۔ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔یہ تو بھلا ہوا کہ موسمِ سرما نے آن گھیرا پھر ایسا بھی کہ امریکہ تک سردی کی لہر چل پڑی ہے۔اس موسم میں پشوریوں کو ہمیشہ شادیوں کے حوالے سے جلدی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اپنے مائل بہ انتظار بیاہ کے پروگرام کو انجام دے لیں۔ ایسی گیدرنگ میں پشاوری اکھٹے ہو جائیں تو چلو دل دہی ہو اور تسلی کہ ہم جدا نہیں۔”گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہونگے۔ یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں“(فیض)۔ شادیوں ہی میں مل لیں گے یہ بڑی بات ہے کہ اتنی ملاقات تو ہونے پاتی ہے۔”نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ۔دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ“۔ مگر زندگی میں تبدیلی تو کیا تبدیلیاں اور ایک نہیں ہزاروں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔یہی تو اس زندگی کو پر کشش اور ہمہ دم نئی نویلی بناتی ہیں۔ابھی ہم کو ہمارے پیارے انھیں ولیموں کے کالموں کے کارن پیارے القابات سے نوازتے ہیں۔ عرضِ خدمت ہے کہ ہم جو دیکھتے ہیں بیان کردیتے ہیں۔کیونکہ رائٹر کوئی بھی خواہ حقیقت نہ لکھے اورافسانہ لکھے وہ اپنی لکھت کو بُنتے وقت اس کا اونی دھاگہ ماحول سے لیتا ہے۔گویا اس کا اینٹنا ماحول میں جھنڈے کی مانند جگمگاتا ہے۔جو کچھ دیکھے گا وہی بیان کرے گا۔بھلا زمین کا آدمی مریخ کے ماحول کو کیونکر بیانیہ میں لا سکتا ہے۔ اس لئے کہ اس نے ستاروں کو دور سے صرف دیکھا ہی تو ہے۔اس لئے ہمیں شادی بیاہ میں جو معلومات میسر آتی ہیں وہ چشم ِ دید ہیں اور جگ بیتی نہیں آپ بیتی ہیں۔خودہم بھی تو شادی ہالوں میں کھانے کی میز کنارے بیٹھے ہوتے ہیں۔مگر یہ کوشش ہوتی ہے کہ جاننے والوں کی میز سے دورہوں کیونکہ کھاتے وقت بعض پیارے باتوں میں لگا لیتے ہیں۔ان سے بات چیت کے وقت آدھا نوالہ منہ میں اور نصف ہونٹوں کے نیچے گرنے لگتاہے۔سو گپ شپ پہلے لگ جائے تو بہترہے اور نہ لگ سکے تو البیلی ڈشوں کو تناول فرما لینے کے بعد لگے توبرا نہیں۔ مگر کھانے کے دوران میں بھی بعض جیدار لوگ دونوں کام بخیر و خوبی انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ویسے بعض حضرات دم لینے کی جگہ نہیں چھوڑتے۔علی الاعلان ہاتھ رکھ کے فرماتے ہیں کہ یار ابھی تو پیٹ کی ایک سائیڈ بھی بھری نہیں گئی۔خیر بہر حال اس موقع پراس قسم کے بہت سے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔مگر جب آ گئے ہیں تو کھانا تو کھائیں گے اور نہیں کھایا تو کھانا کھا کر جائیں گے۔ولیموں کا دل چسپ احوال خاکسار کے پاس اور بھی ہے مگر وہ کسی دوسرے موقع کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔