چاروں اور سردی کے ڈیرے ہیں۔ سائے گھنیرے ہیں۔ دھوپ کا نام و نشان تو ہے مگر کچی اور پھیکی سی ہے۔صبح دن چڑھے ت سورج گرم نہیں ہو پاتا۔کہیں بارش کی دو ایک دن میں نوید ہے تو دوسری طرف فروری کے آخیر تک بارشوں کااتا پتا نہیں۔بارش کے ہوجانے سے ٹھنڈک بڑھ جائے گی۔مگر اس سے جو موسمی بیماریاں حملہ آور ہیں ان کا ٹڈی دل دور بھاگ جائے گا۔جیسے مکڑیاں کھیتوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور فصلی کیڑے کسان کے لئے زحمت کا باعث ہوتے ہیں۔ وہ جراثیم کُش دوا کے چھڑکاؤ سے اپنا مسئلہ حل کرتا ہے۔اسی طرح بارش کے چھینٹے بھی ہوا میں موجود جراثیموں کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ آج کل بچے بیماریوں کا زیادہ شکارہیں۔ٹھنڈک کے باعث نمونیا کے اثرات بہتات سے ہیں۔پہلے زکام بگڑ کر نمونیا بن جاتاتھا۔پھرآج کل نمونیہ کا بگاڑ پن کورونا کے وائرس کو قبول کر کے مریض کو بستر سے لگا دیتا ہے۔لہٰذا ازحد احتیاط ضروری ہے۔جس طرف دیکھودھند کی کارستانیاں ہیں۔ ٹی وی پر نظرکرلو ہرسُو دھندمیں لپٹا ہوا سارا جہاں ہے۔موٹر وے ہے یا عام رستہ ہے دھند میں دکھائی نہیں دیتا۔ گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایات ہیں۔مگرکہاں عمل کرتے ہیں یہاں کے رہائشی۔وہ تو اپنے کام کاج کے لئے نکلیں گے۔ وگرنہ ان کو اس مہنگائی کے عالم میں روٹی کون دلائے گا۔ آٹا ہے کہ روز بروز مہنگا ہو تا جا رہاہے۔موسم کی ابتری اوپر سے ان کے لئے کیوں رکاوٹ بنے۔ کہیں تو سردی کی چھٹیوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔کیونکہ یہ دُھند اب دھند نہیں رہی۔اب تو گاہے سموک ہے کہ دھواں کہو اور کہیں سموگ ہے کہ دونوں سموک اور سموگ ناقابلِ قبول چیزیں ہیں۔سموگ میں دنیا جہان کا گند ہے۔دھوؤں میں لپیٹے گئے روز و شب ہیں جن کی گیس ایک جگہ جمع ہوکر دھند کا غبار بن جاتی ہے۔اس لئے اگر اس میں سانس لینا دمہ کے مریض کے لئے جان لیواہے اور دمہ نہ ہو تو تازہ مریض بنتے جائیں۔اس ٹھنڈک میں ہاتھوں پہ دستانے چڑھے ہوئے ہیں کانوں تک اتر آنے والی ٹوپیاں پہنی جا رہی ہیں کہیں تو چادر
لے کر لوگ گھوم رہے ہیں لکڑیوں سے آگ جلا کر عین سڑک کنارے بیٹھے اس پر ہاتھ تاپ رہے ہیں مگر متوالے اورگرم خون کے اجیالے تو برف زاروں کی سیرکو روانہ ہو چکے ہیں۔وہاں برف کے گالے اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے کو مارے جاتے ہیں۔پھر یہاں ہم ہیں کہ سردی کے دنوں لرزہ بر اندام ہیں۔کپکپی طاری ہے۔یہی صورتِ احوال ہے اور جاری ہے۔کوٹیوں سے بھی کہ دو ہوں تین ہوں سردی کا چلن رک نہیں پاتا جب تلک کہ دھوپ کی ٹکور حاصل ہو نہ پائے۔ پھراس ٹھنڈی دھوپ میں آدمی مستقل بیٹھ کر جسم کو سینک بھی تو نہیں دے سکتا۔کیونکہ کام کاج کرنا ہے۔ویسے یہی مہینہ ہے۔دسمبرگزرنے کو ہے۔دوروز بعد جنوری جودروازوں پردستکیں دے رہاہے اندر آ جائے گا۔ خیراگلے سال کے پہلے ماہ کے گزرتے ہی موسم کی بوالعجبی سامنے آئیں گی اور مکس موسم ماحول کو دلاسہ دینے کو آگے بڑھے گا۔پھر اکیس مئی تک تو نہ گرمی نہ سردی کی کیفیت میں لطف اٹھانے کے دن ہوں گے۔اب سردی بھی تو ایسی پڑ رہی ہے کہ بندہ کسی کام کا نہیں رہا۔کہاں جائے بس بستر میں دبک جائے ہاتھ باہر نکالے تو ہوا چٹکی کاٹے۔سو جو کر سکتے ہیں وہ آرام کرتے ہیں اور نہیں توکام کرتے ہیں۔کام تو کرنا ہے یہی جینا مرنا ہے۔سردی آئے تو یخی کی شکایات درج ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور گرمی ہو تو گرمی کارونا روتے ہیں۔ہم انسان بھی کیا ہوتے ہیں۔کسی کل قرار نہیں۔کسی طرح ایک کیفیت میں نہیں رہتے۔کبھی کیا او رکبھی کیا۔ہنسنا مستقل نہیں ہے اور نہ تو رونا ہمیشہ ہے۔جہاں جن علاقوں میں درختوں اور سبزہ کی ہریالی ہے وہاں تو میدانی علاقے بھی ہوں تو اور زیادہ سرد ہو تے ہیں۔وہی درخت اور پھل پھول پودے کہ جن کی چھاؤں کے لئے گرمی میں ترستے ہیں سردی میں ان سے الرجی سی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ یہ ماحول کو اور زیادہ ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔صبح سمے باہر نکلو تو لگتا ہے کہ ہم سمندروں کی سیر کو نکلے ہیں اور بحری جہاز کے صحن میں کھڑے ہیں جہا ں چہار اطراف پانی ہو۔یہی حال شہروں میں دھند نے اختیار کر رکھا ہے۔زندگی مفلوج تو نہیں ہوئی مگر زندگی سکون سے بھی نہیں۔شہری خس وخاشاک کے لئے ترس رہے ہیں۔کہیں تو پہاڑی علاقوں میں یہ جنسِ گرانمایہ بنا قیمت دستیاب ہے اور کہیں زیادہ گراں ہے کہ غریب سوئی گیس کے نہ ہوتے ہوئے لکڑی بھی جلانے کے قابل نہ ہو۔