سال 1558ء میں‘ جب الزبتھ اوّل تخت نشین ہوئیں تو برطانیہ بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہا تھا۔ اُس وقت انگریزی سکے (پاؤنڈ اسٹرلنگ) کی مانگ بالکل بھی نہیں تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب کرنسی نوٹ کاغذ پر نہیں ہوتے تھے)۔ برطانوی باشندے دیگر یورپی کرنسیاں جمع کرتے اور اُنہیں کی لین دین منافع بخش کاروبار ہوا کرتا تھا لیکن اِس سے بھی زیادہ پریشان کن مشاہدہ یہ تھا کہ یورپی ممالک کی کرنسی (سکے) کا حصول مشکل ہوتا جارہا تھا۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ملکہئ برطانیہ نے معاشی امور کے ماہر سر تھامس گریشم (Sir Thomas Gresham) کو خط لکھا اور اُن کی جانب سے جواب میں سادہ سی تجویز آئی کہ اچھا اور بُرا پیسہ ایک ساتھ گردش نہیں کر سکتا اور بُرا پیسہ اچھے پیسے کی اہمیت ختم کر دے گا۔ بعدازاں گریشم کے اِس مشاہدے کو ”گریشم کا قانون“ کہا گیا لیکن وہ اس رجحان کا مشاہدہ کرنے والا پہلا شخص نہیں تھا۔ یہ معاشی تصور یونانی دور سے مقبول تھا۔ مثال کے طور پر ابن تیمیہ (1263ء سے 1328ء) نے بھی یہی حل معاشی تجویز کیا تھا۔ پاکستان کے معاشی حالات میں بھی گریشم کا قانون مددگار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان اور پاکستانیوں کو ڈالر کی تلاش میں دشواری پیش آ رہی ہے۔سال 2022ء کے اختتام پر صورتحال یہ ہے کہ ڈالر کم ہونے کی وجہ سے درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کئی
صنعتوں کا پہیہ سست ہو چکا ہے یا صنعتیں وافر درآمدی خام نہ ملنے کی وجہ سے بند ہو رہی ہیں۔ جب صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کی رفتار کم ہے تو ملک کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو بھی متاثر ہے جبکہ قومی فیصلہ سازوں کو اُمید ہے کہ پانچ دوست ممالک (چین‘ امریکہ‘ سعودی عرب‘ قطر اُور متحدہ عرب امارات) اِس مشکل میں پاکستان کی مدد کریں گے اور اِسے ممکنہ دیوالیہ (ڈیفالٹ) سے بچا لیا جائے گا۔ ڈالر آخر گئے کہاں؟ اِس معلوم حقیقت کو بدلنے کے لئے منی ایکس چینجرز پر چھاپے اُور پاک افغان سرحد پر ڈالر کی غیرقانونی منتقلی روکنے جیسے اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن ایک مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ ملکہ الزبتھ کو گریشم کی تجویز پر غورکریں۔ برطانیہ نے اپنی کرنسی میں قیمتی دھات (gold) شامل کرنا شروع کیا تو اُن کے سکوں کی قدر میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا اور آج بھی برصغیر پاک و ہند میں پاؤنڈ اسٹرلنگ خواتین کے زیورات میں جڑے نظر آتے ہیں لیکن یہ وہ پاؤنڈ نہیں بلکہ زیادہ تر اُن کی نقل ہوتے ہیں۔ بہرحال برطانیہ نے اپنی کرنسی پر عوام کے ختم ہوئے اعتماد کو بحال کیا اور یہ وہ نکتہ تھا جو سب سے زیادہ ضروری و بنیادی نکتہ ہے کہ کسی ملک کے عوام کو اپنی حکومت اور اپنی کرنسی پر اعتماد ہو۔ پاکستان میں اِن دونوں خصوصیات کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ماضی میں سکے میں قیمتی دھات شامل کر کے اُس کی قدر بڑھائی گئی لیکن آج کاغذ کے ایک ٹکڑے کو کرنسی نوٹ کہا جاتا ہے جس کی قیمت سرکاری فرمان کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ یہی کاغذ کا ٹکڑا کئی ممالک کی کرنسی کو بااعتماد بنائے ہوئے ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں کا قابل اعتماد گورننس فریم ورک (طرزحکمرانی)‘ قابل اعتماد (امانت و دیانت سے مزین) حکومتی ادارے اور ایک محصولات و مالیات کا ایسا نظام ہے جس سے کسی کو استثنیٰ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن ممالک کی کرنسی کو پوری دنیا کا اعتماد حاصل ہے۔ اِن ممالک کا موازنہ اگر پاکستان سے کیا جائے تو تصویر کا بالکل اُلٹ رخ دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے ہاں سخت گیر مالیاتی و انتظامی نظم و ضبط نہیں۔ قوانین و قواعد میں استثنیٰ (سقم بھی) موجود ہیں اور بااثر طبقات اپنے مفادات کے اسیر ہیں‘سوچئے کہ آخر وہ کیا چیز‘ کیا خصوصیت یا
خوبی ہے جس کی وجہ سے امریکہ ڈالر ’ہردلعزیز‘ ہے اور اِس کا شمار ’اچھی کرنسی‘ کے طور پر ہوتا ہے؟ درحقیقت ڈالر کی قدر کا تحفظ کیا جاتا ہے اور کوئی بھی ایسی کرنسی جس کے دفاع کا پورا نظام موجود ہے وہ اپنی قیمت برقرار رکھ سکتی ہے وہ اُس کی مانگ بھی برقرار رہتی ہے۔ آج کی دنیا میں عالمی تجارت کا بڑا حصہ ڈالر پر منحصر ہے۔ ڈالر کے برعکس‘ افراط زر میں اضافے اور مسلسل غیر یقینی صورتحال جیسے دیگر عوامل کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ پاکستانی کرنسی کی بے قدری کی اصل مسئلہ ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی یا ڈالروں کی قانونی و غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک منتقلی (سمگلنگ) نہیں بلکہ پاکستان کے انتظامی و مالی نظم و ضبط‘ اِس کی ساکھ‘ مالیاتی حیثیت اور معاشی انتظام و استحکام کے لئے خاطرخواہ کوششوں کا نہ ہونا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی جا رہی ہے اور اِس کا ملنا مشکل کیوں ہو گیا ہے لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت روپے کے مقابلے ڈالر کو زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔ پاکستانیوں کی رائے ہے کہ معاشی نظام کی بحالی اور پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ جلد ہونا ممکن نہیں رہا۔ سر تھامس گریشم اور ان سے پہلے کے دیگر معاشی ماہرین نے اس مشکل کا حل دے رکھا ہے جسے ملک کے سیاسی و معاشی فیصلہ ساز جتنا جلدی سمجھ لیں گے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔