تیز بارش کا تو کیا کہیے یہاں تو بوندا باندی بھی ہو تو پول کھل جاتا ہے اور سڑکوں کا استر ٹوٹ جاتا ہے تارکول بکھر جاتا ہے۔جانے کب سے بنی ہوئی یہ ہماری سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا اس طرح شکار ہیں کہ ہر بارش میں ان میں پڑنے والے رخنوں میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ بعض مقامات پر تواس جدید زمانے میں زندہ لوگوں کے روز گزرنے کے باوجود یہ آثارِ قدیمہ کا نمونہ دکھائی دیتی ہیں۔اتنے گڑھے پڑے ہوئے ہیں کہ جن میں اگر جمع شدہ پانی اگر صاف ہوتا تو ہم اس صورتِ حال کو قبول کر لیتے۔ سوچتے کہ چلو آئینہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔جگہ جگہ گڑھے کے ہر ٹکرے میں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے‘ سو ان کو اس لئے بھی چھوڑ دیناچاہئے اور مرمت نہیں کروانا کہ یہ ہمیں ہمارا اپنا عکس دکھلاتے ہیں۔سو آئینہ خانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔بس آئینے ہیں اور قدرتی ہیں نہ کسی کارخانے میں بنے ہیں نہ کسی نے ہاتھ ہی سے بنائے ہیں۔سو یونہی سہی۔مگر ایسابھی تو نہیں کیونکہ ان گڑھوں میں جو پانی جمع ہوتا ہے وہ انتہائی غلیظ اور گدلا کہ جس کی چھینٹیں اڑ کر کپڑوں پر آن گریں تو گھر جا کر نہانے کے بغیر گزارا نہ ہو سکے۔یہ سڑکیں زمانہ قدیم سے بنی ہوئی لگتی ہیں کہ اب تک جن کو متعدد نسلیں دیکھ چکی ہوں۔ مگر آثارِ قدیمہ کے کھنڈرات اور نمونوں کو بھی تو سرکاری لوگ آکر درست کرتے رہتے ہیں کہ اگر کوئی دیکھے تو اس پرہمارا برا تاثر نہ پڑے مگر یہاں تو اور ہی بات ہے‘سڑکیں مہینہ پہلے بھی بن کر تیار کی گئی ہوں تو صرف ایک بارش ان کے راز افشاں کر دیتی ہے۔کیونکہ کم لگے ہوئے مسالے او رسیمنٹ بجری اور تارکول میں ملاوٹ سے یہ مسالہ جم نہیں پاتا اور ہلکی بارش میں بھی اس سڑک کو اجاڑ کر رکھ دیتا ہے مگر جو بنانے والے ہیں ان کو دیگر کاموں سے فرصت نہیں تو وہ ان سڑکوں کی طرف کیا توجہ دیں گے بس اگر ایک بار بنا دی تو بس بنا دی بعد میں دیکھا جائے گا۔ نئے سرکاری لوگوں کے آنے تک اس کو مرمت کا منتظر بنا دیتے ہیں۔گاڑی ہو یا سائیکل ہو ہر ایک کے لئے مصیبت بن جاتی ہے۔یوں بھی سڑک خراب ہو اور پھر اوپر سے بارش ہو جائے تو بس سائیکل کو کاندھے پر اٹھاؤ اور گزر جاؤ کیونکہ کیا پتا آن کی آن میں کون سا گڑھا کتنا گہرا ہو چکا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سوئی گیس کے محکمہ والے جو راہ ورستہ کھدائی کر کے گئے تھے تو پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی وہ بھرائی ہموار نہیں کی گئی۔اس پرسڑک نہیں بچھائی گئی۔ہر چند کہ وہ شہر کے بیرون کا علاقہ ہو یا شہر کے اندر مصروف ترین بازار کی رش والی سڑک کیوں نہ ہو۔کتنی سڑکوں کا تو میں خود چشمِ دید گواہ ہوں کہ برسوں پہلے گیس والوں نے کھدائی کی نئے پائپ بچھائے مگر سڑک کو یونہی بے یارو مددگا رچھوڑ گئے۔ کسی نے مڑ کر دیکھا نہیں اور کسی نے حرام ہو جو پوچھا ہو کہ یہ ہوا کیا۔ بنانے کا تو ذکر ہی کیابس ایک سڑک اگر خراب ہو جائے تو یونہی ٹوٹی پھوٹی رہے گی۔ اس کو بنانے کا خیال آنے تک جانے کون کون سے زمانے آکر گزر جائیں گے”تم کوہم خاک نشینو ں کا خیال آنے تک۔ شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک“سڑکوں کی ابتری تو روز کے حساب سے ہے اور فراواں ہے پھر ان کی تعمیر و مرمت صفر بٹا صفر ہے‘ہم تو روڈ ماسٹری میں روزکے ملوث ہونے والے لوگ ہیں ہم کو معلوم ہے کہ کون سا گڑھا کتنے عرصے سے موجود ہے۔کون سی سڑک کو چھیدا گیا تو پھر کتنے عرصے سے بنایا نہیں گیا جگہ جگہ گڑھے ہیں جو گاڑی چلانے والے کے ناک میں دم کردیتے ہیں‘کتنے ہی لوگ ان سڑکوں پر سے روزانہ ہو کرگزرتے ہیں اور ان کو کمر میں تکلیف کی شکایت ہونے لگی ہے‘اگر بارش نہ ہو تو چلو یہ گڑھے باقی بچ رہیں گے۔ مگر جب بارش ہو تو یہاں نئے گڑھے پڑ جاتے ہیں‘پھر ایک گڑھے کے بعد دوسرا اور اسی طرح سے آگے جاتے جاؤ ہر علاقے اور رستے میں یہ تماشا لگا ہوا ہے۔رواں اور فراواں ڈرائیونگ کرنے کا تو موقع ہی نہیں۔کہیں رش ہے کہیں نازیبا سپیڈ بریکر ہیں‘ہم سوچتے کہ کاش بارش نہ ہو۔کیونکہ ابرِ باراں سے سڑکوں کی جان پر بن آتی ہے۔سڑکیں بد حال اور بدنما ہو جاتی ہیں۔خوب چھینٹے اڑتے ہیں۔کہیں تو راہگیروں کے کپڑوں پرگندا پانی گراتی ہوئی گاڑی کے ڈرائیور کو معلوم تک نہیں ہو پاتا کہ میں کون سا گل کھلا کر چلا گیا ہوں‘دوسری طرف متاثرہ فرد کے لب و دہن سے برا بھلا کہنے کے الفاظ فراوانی سے جاری ہو جاتے ہیں۔