یورپی یونین کی آزمائش

اس وقت پورا یورپ ایک طرف موسمیاتی شدت سے دوچار ہے تو دوسری طرف یوکرین اور روس کی جنگ نے یہاں پر توانائی کے ذرائع پر پڑنے والے دباؤ کے باعث مسئلہ پیدا کیا ہے اور کئی ممالک میں گھروں کو گرم کرنے کیلئے توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ ایسے میں سویڈن نے یونین کی ششماہی صدارت سنبھالی ہے۔۔ سویڈن سے پہلے گزشتہ برس کے دوسرے نصف حصے میں یہ ذمے داریاں چیک جمہوریہ نے انجام دی تھیں۔سویڈش دارالحکومت سٹاک ہوم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اب اگلے چھ ماہ تک برسلز میں یورپی یونین کی سطح پر تمام فیصلے سویڈن کی صدارت میں کیے جائیں گے۔ یورپی یونین کے رکن27ممالک میں یونین کی کونسل کی صدارت ہر چھ ماہ بعد بدل جاتی ہے۔سویڈش وزیر اعظم الف کرسٹرسن کے مطابق ان کے ملک کو یونین کے صدر کے طور پرآئندہ جن بڑے موضوعات پر بھرپور توجہ دینا ہو گی، ان میں گزشتہ برس فروری میں روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی مداخلت کے بعد سے اب تک جاری جنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنا اور یورپ کو مستقبل میں عالمی سطح پر بہتر اقتصادی مقابلہ بازی کے قابل بنانا سب سے اہم ہیں۔ کرسٹرسن حکومت سوشل ڈیموکریٹ خاتون سیاستدان ماگڈالینا اینڈرسن کی قیادت میں قائم حکومت کی جانشین کے طور پر اقتدار میں آئی تھی۔موجودہ وزیر اعظم کرسٹرسن سویڈن کے ایسے پہلے وزیر اعظم ہیں، جو دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت سویڈن ڈیموکریٹس کے ساتھ سیاسی افہام و تفہیم سے ملکی حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔سویڈن  ڈیموکریٹس نامی دائیں بازو کی پاپولسٹ جماعت کرسٹرسن حکومت میں شامل تو نہیں لیکن وہ سٹاک ہوم کی قومی پارلیمان میں دوسری سب سے بڑی سیاسی طاقت ہے۔اس عوامیت پسند جماعت کی پارلیمانی نشستوں کی تعداد کرسٹرسن کی اعتدال پسند جماعت کے ارکان کی تعداد سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عوامیت پسند پارٹی کو حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی ملکی سیاست میں اچھی خاصی طاقت کی حامل سمجھا جاتا ہے۔یورپی یونین میں اس سلسلے میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ سویڈن میں موجودہ حکومت کو عوامیت پسند سویڈن ڈیموکریٹس کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم اس بارے میں سویڈن کی یورپی یونین سے متعلقہ امور کی خاتون وزیر جیسیکا روسوال نے اس خدشے کے ازالے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے، ہماری حکومت کی سب سے بڑی ترجیح یورپی یونین میں اپنی ذمے داریاں بخوبی انجام دینا ہو گی۔ تاہم اس حوالے سے یورپی یونین کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کئی طرح کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں اور  سویڈن نے جن اہداف کے حصول کیلئے عزم کااظہار کیا ہے وہ کوئی آسان کام نہیں اور یہ ایک کٹھن چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ یورپی یونین کواس وقت جن مسائل سے عہدہ براہ ہونا ہے ا ن میں روس کے ساتھ یوکرین جنگ کے اثرات سب پر حاوی ہیں۔ اس جنگ میں اگر چہ یورپی یونین نے پوری طرح یوکرین کا ساتھ دیا ہے اور امریکہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس نے یوکرین کو روس کے مقابلے میں مضبوط کرنے کی پالیسی اپنائی ہے اور نہ صرف خود ہر طرح کے ہتھیاروں کے خزانے یوکرین پر کھول دئیے ہیں بلکہ یورپی یونین پر بھی زور دے رہا ہے  کہ وہ یوکرین کی ہر ممکن مدد کریں۔ تاہم مبصرین کے مطابق یورپی ایک خاص حد تک مدد فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ یونین میں شامل کئی ممالک ایسے ہیں جو روس کے ساتھ یکسر ترک تعلق اور دشمنی کے حق میں نہیں ہیں اور ان کی پالیسی ہے کہ روس کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے جائیں جن کے ذریعے یورپی یونین کے مفادات کاتحفظ کیا جاسکے۔ جبکہ دوسری طرف یوکرین روس جنگ کے نتیجے میں امریکہ کی بجائے یورپی یونین کو زیادہ مسائل کاسامنا ہے کیونکہ جنگ کے زیادہ اثرات یونین کے ممالک پر مرتب ہورہے ہیں اور امریکہ ان اثرات سے بالکل محفو ظ ہے۔