ہمارے حصے کی خوشیاں  (سید ابو یاسر)

مشہور ادیب اور لکھاری مستنصر حسین تارڑ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اس موسم گرما میں ویسٹ انڈیزکی تباہ کن کرکٹ ٹیم انگلستان کے دورے پر آئی اور اس میں ان زمانوں کے تین بڑے کھلاڑی جو ”تھری ڈبلیوز“کہلاتے تھے، یعنی فرینک وارل، ویکس اور والکاٹ بھی شامل تھے، میں ان دنوں نوٹنگھم کے ٹیکنیکل کالج میں ٹیکسٹائل انجینئرنگ کے پہلے سال میں تھا، ویسٹ انڈیز کی ٹیم نوٹنگھم میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کھیلنے کیلئے پہنچی اور مجھے خبر ہو گئی کہ وہ کون سے ہوٹل میں مقیم ہے، ان کے علاوہ انگلینڈ کی پوری ٹیم بھی اسی ہوٹل میں فروکش تھی، یقین مانئے کہ مجھے اس خیال سے بخار سا ہونے لگا کہ دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑی جن کی کارکردگی مجھے زبانی یاد تھی، اسی شہر نوٹنگھم کے فلاں ہوٹل میں قیام پذیر ہیں اور انہیں سچ مچ دیکھا جاسکتا ہے، لیکن ان کے ساتھ ملاقات کس بہانے کی جاسکتی ہے، یہ مسئلہ حل نہ ہوتا تھا، اس موقع پر خالد کوکی میری مدد کو پہنچا، وہ دراصل انگلستان میں مختلف معاملات میں میراگائیڈ تھا، یعنی مقامی رسوم ورواج کیا ہیں، ملاقات پر کیا کہنا ہے اور رخصت ہوتے ہوئے اظہار کی صورت کیاہوگی، عام دنوں میں کون سا لباس پہننا ہے، اتوار کے روز انگریزی تہذیب کے مطابق کیسے کپڑے زیب تن کرنے ہیں، خواتین سے راہ ورسوم کے بااخلاق رویئے کون سے ہیں، ہفتے کی شب اگر آپ کسی پارٹی پر مدعو ہوں تو کون سا لباس پراپر ہے اور وہاں ہر فقرے کے آخر میں پلیز کا اور تھینک یو کا اضافہ کرنا ہے، تو خالد کوکی نے اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا”تم اپنا سیاہ پارٹی سوٹ پہنو، بو ٹائی لگاؤ، گلے میں اپنا کیمرہ ڈالو، فلیش گن اور اس کے بلب میں مہیا کردوں گا، اعتماد سے چلتے ہوئے ہوٹل کے فرنٹ ڈیسک پر جاکر کہنا کہ میں براہ راست پاکستان سے آرہا ہوں اور ایک اخبار ”پاکستان ٹائمز“کا نمائندہ خصوصی ہوں اور مجھے کرکٹ کے کھلاڑیوں کے انٹرویو کرنے ہیں“اور بالکل وہی ہوا جوکوکی نے کہا تھا، مجھے ایک سیاہ سوٹ اور بوٹائی میں ملبوس دیکھ کر ہوٹل کا عملہ فوراً مودب ہوگیا، فرنٹ ڈیسک پر جو منیجر تھا وہ میرے کیمرے کے ہمراہ فلیش گن دیکھ کر بے حد متاثر ہوا کہ ان دنوں جب کہیں کوئی تصویر فلیش بلب سے اترتی تھی تو دھوم پڑ جاتی تھی، اس نے بتایا کہ بیشتر کھلاڑی لاؤنج میں گپیں لگا رہے ہیں یا مشروبات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس نے مجھے انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے تمام کھلاڑیوں کے روم نمبر بھی دے دیئے، لاؤنج کے بار کاؤنٹر پر بیٹھے قدرے فربہ ٹام گریونی کو میں نے فوراً پہچان لیا، اس کے ہمراہ وکٹ کیپر گاڈ فرے ایونز تھا اور برابر میں خوبصورت بیٹسمین پیٹرمے براجمان تھا، یہ حضرات بھی میرے گیٹ اپ اور فلیش گن سے بے حد متاثر ہوئے، میرے احمقانہ سوالوں کے جواب نہایت سنجیدگی سے دیئے، تصویریں اتروائیں بلکہ میرے ہمراہ بھی اتروائیں، جب میں نے سرلین ہٹن کو دیکھا تو مجھے وہی تصویر یاد آگئی جس میں وہ خان محمد کے بال پر بولڈ ہو رہا ہے اور میں نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ وہ بال کیسا تھا جس نے آپ جیسے عظیم کھلاڑی کو بھی کلین بولڈ کردیاتوا س نے ہنس کر کہا ”شاید وہ مجھے نظر ہی نہیں آیا تھا“اسی طور میں نے انگلینڈ کے بقیہ کھلاڑیوں سے بھی ملاقات کی اور ان کی تصاویر اتاریں، اب ویسٹ انڈیز کی باری تھی معلوم ہوا کہ وارل جو بعد میں سرفرینک وارل ہوا، اپنے کمرے میں ہے اور میرا منتظر ہے، اب یہ جو سیاہ آندھی وارل تھے، ان کے ہمراہ ویکس بھی اتنے ہی سیاہ اور توانا تھے سچی بات ہے مجھے ان سے بہت ڈر لگا تھا لیکن سب سے یاد گار ملاقات ویسٹ انڈیز کے نوجوان اور تیزی سے ابھرتے ہوئے بیٹسمین روہن کنہائے کے ساتھ ہوئی، وہ تقریباً میری عمر کا تھا اور ہم کسی حد تک دوست بن گئے،نوٹنگھم کے اس ہوٹل میں کھینچی ہوئی تصاویر کی دو دو کاپیاں بعد میں میں نے ان کھلاڑیوں کے ذاتی پتوں پر روانہ کیں اور انہوں نے ایک تو خود رکھ لی اور دوسری پر میرے نام کے آٹو گراف سائن کرکے مجھے روانہ کردی، یہ آٹو گراف شدہ تصاویر تقریباً بیس برس پہلے تک میرے پاس تھیں پھر کسی پرانے صندوق کے ساتھ گم ہو گئیں۔ اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ گزرے لمحات کو تحریر میں قید کرنے کا فن ہے جس کا اندازہ مستنصر حسین تارڈ کی زیر نظر تحریر کو پڑھ کر بخوبی ہوتا ہے۔