میں پُل کے نیچے سے موڑ کاٹنے لگا تو دیکھا مڑنے والے راستے کو ٹریفک پلان کے تحت بند کر دیا گیا تھا۔ وہاں سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاک پڑے تھے۔ٹریفک سیدھی رواں دواں تھی اور روزکی طرح بھاگم دوڑی موجود نہ تھی۔اس کا دوسرا مطلب تو یہ تھا کہ یہاں سے میل بھر جو ہسپتال تھا اب وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں چار میل کا سفر طے کرنا تھا۔ حالانکہ اگر وہاں ہم لوگ موٹر بائیک سے اتر جاتے۔پھر وہاں سے پیدل ہی ہسپتال تک پہنچ جاتے تو جلدی پہنچ جاتے۔مگر اب تو بائیک پر شہر کے بیچوں وبیچ سے ہو خاصی تکلیف میں وہاں پہنچنا تھا۔ پھر رکشوں کا رش بھی تو نہ تھا۔کیونکہ ان بیچاروں کو سی این جی نہیں مل رہی تھی۔ اس لئے صرف رکشے ہی نہ ہونے سے سڑکیں سنسان تھیں۔آگے ہوئے تو ایک جگہ سے گلی بند تھی۔ساتھ والی گلی سے نکلنا چاہا تو وہاں بھی لوہے کا گیٹ لگاتھا۔ بلکہ تیسری گلی کو بھی پھلانگنا پڑا۔چوتھی گلی میں سے کہیں راستہ نکلا۔ہوگی ان کی اپنی کوئی مجبوری۔مگر ہمیں بہت زحمت اٹھانا پڑی۔ وہاں تو سب گلیوں میں اور پھر وہاں کیا پورے شہر میں سپیڈ بریکروں کا جال بچھا ہوا ہے۔جہاں کہیں اگر سڑک پر کھڈے نہیں تو وہاں بہتات سے سپیڈ بریکر ہیں۔۔یہ خود شہریوں ہی نے اپنے لئے جگہ جگہ دام بچھا دیئے ہیں۔غرض یہ کہ پاس سے اگر سڑک کو بند کر دیا جائے تو ہمیں اپنی منزل تک دور سے ہو کر آنا پڑے گا۔ شہر وہی تنگ و تاریک ہے مگر اس میں جو راستے ہیں وہ طویل ہیں۔بھول بھلیاں ہیں اور بائیک کو موڑتے رہو ہاتھ شل ہونے لگیں گے مگر منزل او ردور ہوتی جائے گی۔ جس گلی سے نکلنا چاہوکہ شارٹ کٹ ہے۔وہاں معلوم ہوتا ہے یہاں سے منزل ابھی اور بھی دور ہو گئی ہے۔رکشے والے توبیچارے یونہی بدنام ہیں اور رش کا تو یونہی غلطی میں نام لیا جاتا ہے۔کیونکہ شہر کی سڑکیں اس وقت سنسان تھیں مگر راستے جو تبدیل کرنا پڑے تو ایک ہی جگہ گول گول گھوم کر دوبارہ آنے سے راستے بہت طویل ہو گئے۔تاہم ٹریفک میں روانی رہے تو طویل راستے مختصر پڑ جاتے ہیں اور ٹریفک رکی رہے تو مختصر فاصلہ بھی طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔مگر بعض شہریو ں کے بند دماغوں کو کھولنا بہت ضروری ہے۔شہری اگر تعاون نہ کریں تو کوئی منصوبہ پایہ تکمیل نہیں پہنچ سکتا۔کیونکہ یہ جو پلاننگ او رمنصوبہ بندی ہے وہ تو شہریو ں ہی کے فائدے کے لئے سامنے لائی جاتی ہے۔ اگر سڑک کے موڑ کو کسی وجہ سے کہ بہتری آئے بند کر دیں تو موٹر سائیکل والے سڑک کے بیچ گرین بیلٹ والی پٹی کی اینٹوں اور بلاک کو توڑکر وہاں سے خطرے کی حالت میں گزرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ یہاں سے دوسری سڑک پرمنتقل ہونا درست نہ ہوگا کیونکہ بھاری گاڑیوں کا روڈ ہے پیچھے سے ہمیں کوئی گاڑی ہمیشہ کے لئے زمین میں دھکیل سکتی ہے۔ٹریفک کے حوالے سے جامع پلان کا ذکر اخباروں میں آ رہا ہے یہ جس قدر جلد سامنے آئے تو بہتر ہے۔ ظاہر ہے انہوں نے اس حوالے سے خصوصی ہوم ورک کیا ہے اور اس منصوبہ بندی کا عوام کو فائدہ ہی ہوگا۔ درست ہے کہ وہ ہم سے زیادہ سمجھ رکھتے ہیں۔کیونکہ جن کاکام ہے وہی اس کو بخوبی نبھا سکتے ہیں۔ مگر شہریوں کی آسانی کے لئے جلد از جلد کچھ ہونا چاہئے۔بڑوں کو درکار ہے کہ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور کوئی نئی دنیاایجاد کریں۔کیونکہ وہی شہر ہے اور وہی ہم ان سڑکوں پر خوار و زار گھومتے پھرتے ہیں۔گھر سے باہر جانا ہو تو ٹینشن سی لگی رہتی ہے کہ کس راستے سے جایا جائے۔کیونکہ گذشتہ روز آپ جس راستے سے آئے تھے وہ کسی بھی وقت بند ہوسکتا ہے۔اگر آپ اپنی آسانی کے مطابق اسی راستے پر گئے تو وہاں آپ کو بندشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے سوچ سمجھ کر گھرسے نکلنا ہوگا۔بلکہ روزانہ کے حساب سے ٹریفک کے بہاؤ پربھرپور نگاہ رکھنا ہوگی۔