قدرت اللہ شہاب جہاں قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں اہم ترین عہدوں پرفائز رہے وہاں انہیں قدرت نے زور قلم سے بھی نوازا تھا اور ان کی خود نوشت کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جسے پڑھنے والوں کی بھر پور ستائش ہر دور میں ملی ہے۔ اپنی سوانح عمر میں قدرت اللہ شہاب نے واقعات کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ جہاں پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رہتی ہے وہاں بہت سی اہم شخصیات کی زندگی کے اہم ترین پہلوؤں سے شناسائی بھی ہوجاتی ہے، اپنی سوانح عمر میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ جن دنوں پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کراچی چھوڑنے سے پہلے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر عمرہ ادا کر آؤں۔ اس مقصد کے لئے مجھے اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے کچھ رقم نکلوانے کی ضرورت تھی۔ اے جی پی آر کی ہدایت کے مطابق میں نے ایک فارم بھرا جس پر اپنے ہیڈ آف آفس کے دستخط کروانے بھی لازمی تھے دفتر والوں نے کہا کہ میرے ہیڈ آف آفس بھی صدرایوب بذات خود ہیں‘ اس لئے مجھے ان سے بھی دستخط کروانا ہوں گے۔ مجھے اس بات میں کسی قدر تردد تھا کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ان کو کیا تکلیف دوں‘ لیکن ضابطے کی خانہ پری بھی ضروری تھی اس لئے وہ فارم ان کی خدمت میں دستخطوں کے لئے بھیج دیا‘ ساتھ ہی پندرہ دن کی چھٹی کی درخواست بھی بھیج دی۔تھوڑی دیر کے بعد صدر ایوب ان کاغذات کو ہاتھ میں لئے میرے کمرے میں آئے اور میری ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے‘ مسکرا کر بولے ”پراویڈنٹ فنڈ تو ریٹائر ہونے کے بعد کام میں لایا جاتا ہے۔ تم ابھی سے اس میں سے یہ رقم کیوں نکلوا رہے ہو؟ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ عمرہ پر جانے کا ارادہ بتایا تو وہ کسی سوچ میں پڑ گئے ”اگر ارادہ تھا تو تنخواہ میں
سے پیسہ بچا بچا کر رکھتے۔ پراویڈنٹ فنڈ میں سے کچھ نکلوانا دور اندیشی کی بات نہیں۔ میں خاموش رہا تو انہوں نے جیب سے اپنی ذاتی چیک بک نکالی اور فرمایا اس رقم کے برابر میں تمہیں اپنا ذاتی چیک دیتا ہوں۔ نصف رقم تم اپنی سہولت سے رفتہ رفتہ واپس ادا کر دینا‘ باقی نصف میرا تحفہ سمجھو۔ شکریہ ادا کرکے انتہائی لجاجت سے میں نے انہیں سمجھایا کہ عمرہ جیسے دینی سفر پر مجھے اپنے خرچ ہی سے جانا چاہئے اس کے بعد اگر مجھے کبھی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی فیاضی سے ضرور فائدہ اٹھاؤں گا‘یہ سن کر وہ زور سے ہنسے اوربولے ہر روز عیدنیست کہ حلوہ خورد کسے‘ اس کے بعد میرے فارم پر انہوں نے خندہ پیشانی سے دستخط کر دیئے۔ایک اور مقام پر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ صدرایوب کی سب سے چھوٹی صاحبزادی کی شادی ہوئی تو سادگی میں یہ تقریب بھی اپنی مثال آپ تھی راولپنڈی سے ان کے ساتھ پرسنل سٹاف کے فقط ہم چار پانچ آدمی ان کے گاؤں ریحانہ گئے ان کے آبائی مکان کے ایک کھلے احاطے میں درختوں کی چھاؤں میں چند کرسیاں اور کچھ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں وہاں بیٹھ کر ہم نے بارات کا استقبال کیا نکاح کے بعد کھانا ہوا اور انتہائی سادگی کے ساتھ رخصتی ہوگئی اس تقریب میں صرف گاؤں کے کچھ احباب اوربرادری کے لوگ شریک ہوئے جس سادگی سے شادی کی تقریب ہوئی تھی اسی سادگی سے ہم نے اخبار میں ایک چھوٹی سی دو سطری خبر چھپوا دی ٹی وی کا دور تو ابھی نہ آیا تھا لیکن ریڈیو پاکستان کے کسی بلیٹن میں اتنی سی خبر بھی نہ آئی یہ دیکھ کر چند وزیر‘ افسر صدر ایوب کے سر ہوگئے کہ اس سادہ تقریب کی خاطر خواہ پبلسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا امیج بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا ہے“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے معاملات کا یکسر بدل جانا ہے۔ ایک اور دور تھا اور ایک آج کا دور ہے کہ ہر کام میں دوسروں کو متاثر کرنے کا طرز عمل ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے اور اس معاملے میں عوام و خواص سب برابر کے شریک ہیں۔