ہم صفائی پسند کیوں نہیں 

ہمارا نہری پانی ہماری فصلوں کو تو سیراب کرتا ہے۔مگر اس میں اتنا دم خم نہیں جو اس پانی سے آدمی اپنی پیاس بھی بجھا سکیں۔بلکہ یہی آدمی ہیں جو اس میں دنیا جہان کا گند پھینکتے ہیں۔ ان کے دل میں یہ بات پختہ ہو چکی ہے کہ یہی مناسب ترین مقام ہے کہ جہاں گند کوڑا کباڑ گوبر پھینکے جاسکتے۔یہاں گند ڈال کر جیسے کہیں ارسال کر رہے ہوں فخرسے لوٹ آتے ہیں۔جیسے پہاڑی علاقوں سے درخت کاٹ کر ان کے تنے گٹّو وغیرہ نیچے آتے ہوئے دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ وہی دریا اس لکڑی کو وہاں تک آسانی سے پہنچا دیتا ہے جہاں تک یہ لوگ ان تنوں کو پہنچانا چاہتے ہیں۔بلکہ یہ تو گھروں کے نئے تعمیر شدہ پرنالوں کو بھی اسی نہر میں اتار دیتے ہیں۔اتنا پختہ اور یقین کہ ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس سلسلے میں بھی کوئی نئی قانون سازی ہونا چاہئے۔ کم از کم اعلان کی حد تک ہی سہی کہ ان کو یہ پیغام پہنچے کہ یہ کام کرنا جرم ہے۔بھلے وہ قانون کی گرفت میں نہ آئیں اور نہ ہی ان کو سزا ملے یا نہ مل پائے۔تعمیر پختہ کہ گھروں کے گندے پانی کا سارا نکاسی کا نظام انھیں پرنالوں کے حوالے ہے۔نہر کا تو کیا ذکر ہمارے دریا بھی گندے ہو رہے ہیں۔ہم ان دریاؤں کو رجھ کر گندا کرر ہے ہیں۔یہ بھلا ہو جانوروں اور پرندوں کا کہ وہ ان دریاؤں میں سے اپنی پسندیدہ خوراک حاصل کرتے ہیں تو دریاؤں پر گند کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ وگرنہ ہمارے شہریوں کے تو بس میں نہیں کہ ان دریاؤں کو صاف ستھرا رکھ سکیں۔دریا تو چھوڑ سمندر کے ساحل پر بھی دنیاجہاں کا کاٹھ کباڑ اور کوڑا پڑا ہوتا ہے۔خالی شاپر جوس کے خالی ڈبے کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں اور جانے کیا کیا وہاں کوڑے کے طور پرموجودہوتا ہے۔پھرسمندروں کا تو ذکر ہوا مگر پہاڑوں تک کو گندا کیا ہوا ہے۔گلیات میں خواہ جو گلی ہو وہا ں کے پہاڑوں پر سیر کی غرض سے جا کر وہاں سے اپنا کھایا ہوا کھانے کا باقی ماندہ کوڑا اوپر سے پھینک دیتے 
ہیں۔حالانکہ اس پر جرمانہ ہے مگر لوگ بازنہیں آتے۔پھر سرکاری لوگ بھی کہاں تک جا کر ان کو چیک کریں گے۔ان کے لئے تو یہ ڈیوٹی کہیں برفانی چیتوں کے حوالے کریں تو بات بنے۔مگر ہم لوگ کہاں سمجھنے والے ہیں۔اور تو اور ہمارے کے ٹو اور دوسروں کے ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند ترین چوٹی پر بھی گند پڑا ہے۔ان سے اتنا نہیں ہوتا کہ وہ گند کسی شاپر میں ڈال کر نیچے زمین پر لے آیا کریں۔ہم اسی حوالے سے دنیا بھر میں جب صفائی کی بات آئے تو بدنام ہوئے جاتے ہیں۔کبھی تو لاہور سرِ فہرست آتا ہے اور کہاں کراچی۔ پھر ہمارے پیارے شہر پشاور کو بھی تو آلودہ کیا جارہا ہے۔اتنا کہ اس کا نمبر آلودہ ترین شہروں میں ٹاپ کلاس کے دس شہروں میں آتا ہے۔ہم کیوں ایسا کرتے ہیں اور وہ باہر والے شہری کیوں ایسا نہیں کرتے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کو تو صاف رکھتے ہیں مگر گھر سے باہر گلی اور گلی کے باہر سڑک کو اپنا گھر ہی نہیں سمجھتے۔ اتنی سمجھ تو رکھتے ہیں کہ اپنے گھر کو صاف رکھیں گے مگر باہر کے شہری ماحول کو جی بھرکے خراب کریں گے۔ابھی تو سنا ہے کہ چند ہی دنوں میں نہروں کا پانی بند کردیا جائے گا۔ پھران نہروں کو صاف کرنے کاکام شروع ہوگا۔موجودہ وقت میں مہینہ دو ہو ئے ہیں نہروں کا پانی کناروں سے باہر اُبل رہا ہے۔جس سے تو سڑکیں خراب ہوتی ہی ہیں مگر گزرنے والوں کے کپڑے بھی گندے ہوتے رہتے ہیں۔کیونکہ یہ پانی صاف ہوتا تو شہری ٹپکے بھر بھر کے گھروں میں لے جاتے۔سمندروں کے ساحل کی زمین تو گندی ہے اور کوڑے سے اٹی ہوتی ہے مگر خود سمندر کے پانی میں کناروں کے پاس بھی گند پڑا ہو تا ہے۔جس سے انسان تو کیا خودمچھلیوں کی زندگی بھی آدمیوں کے ہاتھوں خطرے میں ہوتی ہے۔ کاش ایسا نہ ہو مگر ایسا ہوتا ہے اور آگے بھی ہونے کا امکان ہے۔ کیونکہ اس حوالے سے کورس میں اگر کوئی مضمون ہوتا یا کوئی تحریر سامنے آتی تو بچپن سے تربیت کرنے کی غرض سے ہماری تربیت ہورہی ہوتی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صفائی اور ماحول کے حوالے سے حساس رویے کو پروان چڑھایا جائے‘ اس ضمن میں تعلیمی نصاب اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔