(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک درویش کا قول ہے کہ’دنیاایک دریا کی مانند ہے کہ اس کا دوسرا کنارہ آخرت ہے،تقویٰ اس کی کشتی اور انسان کی حیثیت مسافر کی سی ہے‘مگر اکیسویں صدی کے اِس تیز رفتار معاشرے میں ایسی باتوں پر غور کرنے والے کتنے ہیں آج کا انسان تو’دنیاوی لذتوں‘ کیلئے اپنی اصل اور حقیقت سے بہت دور ہو چکا ہے اب تو سبھی صرف اپنی ’خیر‘ مانگتے ہیں۔ٹریفک کے نظام کو دیکھ لیں ہر کوئی خود جلد سے جلد اپنی منزل پر پہنچنے کا تمنائی ہے دوسرے کو راستہ دیناتو دور کی بات ٹریفک کے سارے اصول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں موٹر سائیکل سوار کاروالوں کو ہارن دے کر راستہ مانگتے ہیں اگر گاڑی والا بروقت راستہ نہ دے تو موٹر سائیکل سوار غصے سے گھور کر گزرتا ہے۔’میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ایک سوشل میڈیا بھی ہے۔لمحہ بہ لمحہ با خبر رہنے کے بخار نے ہمارے اعصاب شل کر دیئے ہیں ہمارا جی چاہتا ہے کہ ’فیس بک‘ کی گلیوں میں مرزا یار بن کر تنہا پھرتے نظر آئیں۔تقریب‘اجلاس‘ سیمینار‘کانفرنس کسی کی ہو تصویر ہماری دکھائی دے۔ہم سب اتنی جلدی میں کیوں ہیں۔شارٹ کٹ سے راتوں رات دنیا کی تمام نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی ہے۔ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کی قوت اور جذبہ ایثار کہاں چلا گیا ہے۔ان سوالات سے دل معمور ہو جائے تو با با جی کی بات کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔فرمایا ہمارا رہن سہن‘کھانا پینافطرت سے دور ہو گیا ہے۔مٹی کے انسان نے مٹی سے دوری اختیار کرلی ہے۔سہل پسندی اور تعیش نے انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔یہ بات کس قدر سچ ہے آج جب ہم اپنے بچپن اور ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو غربت کے باوجود وہ دور کتنا اچھا لگتا ہے۔گندم کی روٹی اس وقت کم ہی نصیب ہوتی۔زیادہ تر لوگ مکئی، باجرہ کی روٹی‘ دال‘ساگ،چٹنی سے کھا کر گزارا کرتے تھے اور ہانڈی تو صرف ایک وقت شام کو پکتی تھی۔ناشتے کا رواج بھی کم تھا۔رات کی بچی روٹی،لسی یا کبھی دودھ، چائے سے کھا لی جاتی تھی۔البتہ دوپہر کا کھانا دس،گیارہ بجے تیار ہو جاتا تھا۔والدہ دیگر خواتین کے ساتھ تندور پر روٹیاں لگاتیں اور پھر سبھی محلے کی عورتیں اپنے اپنے بچوں کے ساتھ کسی ایک درخت کی چھاؤں میں لنچ کرتیں۔لنچ کیا تھا،چپڑی ہوئی مکئی یا گندم کی روٹی،اس پر اچار کی ڈلی یا چٹنی وغیرہ۔آج کے شب و روز پر نظر ڈالیں تو ناشتے کی کئی اقسام سامنے آچکی ہیں۔چائے انڈہ پراٹھا تو عام گھروں میں ناشتے میں استعمال ہوتا ہے۔سری پائے‘نان مرغ چنے،نہاری اور حلوہ پوری بھی لوگ شوق سے کھاتے ہیں اور یہ سب کچھ کھا کر ہم ہاتھ سے کام کم ہی کرتے ہیں۔زیادہ متحرک رہنا بھی زندگی سے کم ہوگیا ہے۔ ہمارا زیادہ وقت ائر کنڈیشنڈ کمروں، میں بیٹھے یا لیٹے ہوئے، ٹیلی ویژن،کمپیوٹریا پھر موبائل پر نظر چپکائے گزرتا ہے۔اوپر سے ہمارا پانی بھی صاف نہیں خوراک ملاوٹ شدہ ہے۔ ایسے میں ہمارا معاشرہ بیمار نہ ہو تو کیا ہو۔فکر و تدبر سے عاری اذہان اپنی یا دوسرے کی بہتری کیلئے کیسے سوچ سکتے ہیں؟پلاسٹک نے ہماری زندگی اجیرن کر دی ہے۔ایک زمانے میں پیتل کے برتن ہوتے تھے۔ان کی حالت خراب ہوتی تو انہیں پھر سے قلعی کرا کے چمکا لیا جاتا تھا۔پھر سلور کے برتن آگئے۔آج پلاسٹک کے ڈنر سیٹ،پلاسٹک کی بوتلیں،کرسیاں،میز ہر چیز پلاسٹک کی آگئی ہے۔ بچوں کے دودھ کیلئے فیڈر بوتلیں بھی پلاسٹک کی ہیں گھر کا کام عموماََ ملازم کرتے ہیں۔ایسے میں وزن اور بیماریاں کیوں نہ بڑھیں۔ہماری نئی نسل کی بچیوں سے پوچھا جائے تو جواب ملتاہے ’مجھے کوکنگ کا شوق ہی نہیں ہاں چائے کیساتھ انڈہ اُبال لیتی ہوں۔“ پھر ہماری دو نمبر خوراک نے اور خاص طور پر یہ جو برائلر کھائے جاتے ہیں، کیا یہ پلاسٹک نہیں؟کئی قسم کے مصالحوں سے تیار شدہ بریانی اور مرغ کڑاہیاں چسکا تو دیتی ہیں مگر اسی گوشت کو ابال کے کھا کر دیکھیں آپ پلاسٹک چباتے نظر آئیں گے۔خشک دودھ کو بھی بعض سیانے، پلاسٹک ہی قرار دیتے ہیں۔ہمیں یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی تک دیہات میں دیسی گھی استعمال ہوتا تھابعض گھرانوں میں مٹی کی ٹھیکری گرم کر کے اس پر تھوم رکھ کے، دھونی لگائی جاتی تھی۔اس دھونی(تڑکے) والی دال کا ذائقہ ہی کمال کا ہوتا تھا ایک زمانے میں اساتذہ امتحان قریب آتے ہی طلبا کو فالتو وقت بھی دیا کرتے اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر سخت محنت کراتے تھے،طلبا کا تختی اور سلیٹ سے ایک تعلق تھا۔آج اس کی جگہ کاپی اور ٹیبلیٹ نے لے لی ہے جس سے بچوں کی لکھائی اور املابہت خراب ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا نے معلومات کی یلغار سے ہمیں باخبر تو کردیا مگر ہم صاحب علم نہیں ہو سکے۔سو ہم باشعور کہلا کر بھی اپنی صحت اور تندرستی کیلئے کچھ نہیں کر سکے۔