اگر ہمارے شہر کے راستے گرد و غبار سے اٹے نہ ہوں۔ عمارتوں کے رنگ اور روپ و سروپ مٹی کے دھوئیں میں گدلائے نہ ہوں۔سبزہ دھول میں لپٹا نہ ہو گلی کوچوں میں گندے شاپر یہاں وہاں بکھرے ہوئے پڑے نہ ہوں جگہ جگہ پانی رکا ہوا اور گڑھوں میں سے ہوکر سیمنٹ اور تارکول کو اور بھی خراب کر کے راستوں کو پتھروں کے دور کا آئینہ نہ بناتا ہو۔ انھیں راستوں پہ چل کر اگر لاکھوں رکشے اور چنگ چی اور ساتھ موٹر سائیکل کلبلاتے ہوئے کیڑوں کی طرح اِدھر اُدھر گھومتے نہ ہوں۔چو رستے سڑکیں اور چوک رش میں بوجھل نہ ہوں۔ بازاروں میں کاندھے سے کاندھا چِھل نہ رہا ہو۔ہلڑ بازی شور شرابہ نہ ہو بھاگم دوڑی اور افراتفری کی تفریح نہ ہو۔ رات گئے تک شہرمیں سناٹے کے باوجود کہیں دوستوں کی منڈلیاں بیٹھیں فریش جوس نہ پی رہی ہو۔گھنٹہ گھر ہو یا قصہ خوانی اندھیرے کے اس عالم میں اس بازار کی دکانوں کے تھڑے تکہ کڑاہی کھانے والوں سے آج بھی بھرے نہ ہوں۔ کہیں قہوہ خانے کے باہر بیٹھ کر قہوہ نوشِ جاں ہو نہ رہا ہوتو پھر بتلاؤ کہ پشاور کہاں۔ پشاور تو اب نام ہو چلا ہے اک ترتیب کا اور دوسری طر ف ایک بے ترتیب ساعتوں کا۔قصہ خوانی کی رات کو بند دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر سیخ تکے کھانا اب بھی ہے اور تب بھی تھا کہ جب ہم جواں تھے۔اس وقت بھی تھا کہ جب ہم سے عمر میں بڑی نسل کے نمائندے بھی اس بازار کے چکر لگایا کرتے تھے۔ مگر پچھلی نسل تو کیا اب ہماری نسل سینئر ہو چکی ہے۔مگر ہمارے پاس وقت ہی نہیں رہا کہ کچھ جستجو کریں ہاؤ ہو کریں۔وہ دوستیاں جو اس وقت زیرِ نظر تھیں اب آنکھوں سے اوجھل ہو چکی ہیں۔وہ موتیوں کی مالا اب بکھر چکی ہے۔۔ آئینہ ٹوٹے تو چھناکا ہو تاہے اور کرچی کرچی شیشے زمین پر پھر کبھی ایک نہ ہونے کے لئے تتر بتر ہو جاتے ہیں۔یہی حال اب ہمارا ہے۔وہ دوست یار کچھ ہی مدت ہوئی ہے کرچی کرچی شیشے کی مانند موجود تو ہیں مگر اپنی اپنی مجبوری کے تحت ایک دوسرے سے وقت پر اور کسی خاص دن بھی جی چاہے تو بھی مل نہیں سکتے۔پہلے تو اندرون شہر ایک مٹھی میں آجاتاتھا۔ جہاں کے باشندے بھی ایک جگہ چند گلی کوچوں کے رہائشی تھے۔ رات گئے کسی دوست کے گھرکے نیچے سے گزرتے تو وہ انتظار میں ہوتا۔ وہ ہماری آواز سن کر نیچے آ جاتا تھا۔اس کو ساتھ ملا لیتے اور ایک دو تین یار شام کے بعد رات کے اندھیرے میں قصہ خوانی کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے ہوتے تھے۔اگر دیر سے آئے تو بھی فکر نہ ہوتی۔ہائے ماں ضرور انتظار کر رہی ہوتی کہ ہم گھر کو لوٹ آئیں تو اس نے ہمیں دروازہ کھولنا ہے۔والدتوصبح اٹھنے کے ہوتے اور دفتر جانا ہوتا۔مگر ہم بے فکرے اور بے روزگار مگر ماں کی سپر داری میں تھے۔ وہ کہتی تو کچھ نہیں مگر ہمارے لئے جاگتی ضرور تھی۔پوچھتی خیر تو تھی دیر کیوں لگا دی کہتی ”اب تو روزانہ کا یہ معمول ہوا“۔ مگر ہم کہتے ارے کچھ بھی نہیں ویسے ہی دوستوں کے ساتھ رہے۔قصہ خوانی میں چھوٹی چھوٹی کتابوں کا سٹال مشہور اور بند دکانوں کے باہر تھڑے پر سجا ہوتا۔ ہم گزرتے تو کوئی نہ کوئی کتاب خرید لیتے۔پھر گھر آکر اسی وقت پڑھنا شروع کر دیتے نیند آجاتی تو سوئے پڑے ہوتے۔ اس نوعمری کے زمانے میں کچھ شعر کہنے کا بھی چسکا لگا ہوا تھا۔پھر خود شعر کہہ ڈالنے اور دوسروں کی کتابیں لے کر پڑھتے۔اسی دوران میں کچھ اپنے ذہن پر شاعری سوار ہو جاتی تو غزل وغیرہ کہہ لیتے۔یونہی زندگی کو گزار نے لگے تھے۔ ہم سمجھتے کہ یہی زندگی ہے۔مگر اب آکر معلوم ہوا ہے کہ وہ زندگی تو اس عمریا کی مرہون تھی مگر یہ زندگی تو اب اس گئی عمر کی مرہونِ منت ہے۔اب تو ہمیں دوسروں سے تو کیا خود اپنے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی نہیں مل پاتااب ایسی بھی مصروفیت کیا کہ دوست یاربھی چھوٹ گئے ہیں اور جو قریبی رشتہ داریاں ہیں وہی نبھا لیں تو بہت غنیمت ہے۔پہلے تو سہہ پہر کو دو ایک یار اپنی بیٹھک میں بھی آجاتے۔ہم بیٹھے رہتے اور خوب اچھاوقت گزرتا۔چوک ناصر خان میں ہمدمِ دیرینہ فیاض درانی کی بیٹھک ہماری آرام گاہ تھی۔ کتابوں سے بھری ان کی بیٹھک اور ہم۔کبھی ان سے کتاب لے لی پھر انھوں نے اپنے ٹیپ ریکارڈ کا سسٹم بھی بہت اپ ڈیٹ کر کے پرانے گانوں کو جو بلیک اینڈ وائٹ بھی تھے اور درمیانی مدت کے تھے خو دبھی سنتے اور ہمیں بھی سناتے۔وہ دور یاد آتا ہے تو دل میں ایک چھری سی چل جاتی ہے۔گاہے خیال آتا ہے کہ کیا وہ زمانہ دوبارہ واپس آ سکتا ہے۔