ملک میں آنے والے حالیہ ”سُپر سیلاب“ کو چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور افراد کی بحالی تاحال ممکن نہیں ہوسکی۔ خلاصہئ کلام یہ ہے کہ مجموعی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سال دوہزاربائیس کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے مناسب انداز میں نمٹنے کی بھر پور کوشش کے باوجودیہ مسئلہ موجود ہے۔ اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو نقد امداد فراہم کی ہے لیکن اِس طرح کی مالی امداد تقسیم کہ جس کی نگرانی کا الگ سے نظام موجود نہیں اپنی ذات میں بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات کا باعث ہے۔ برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے باوجود بھی سیلاب سے متاثرہ درجنوں اضلاع میں پانی کھڑا ہے۔ زرعی اراضی ناقابل استعمال ہے اور سینکڑوں مربع کلومیٹر پر کھڑے پانی سے بیماریاں (وبائیں) الگ سے پھیل رہی ہیں۔ سیلاب کے فوری بعد امدادی کاموں میں کچھ تیزی دیکھنے میں آئی تھی لیکن ہنگامی امداد کی فراہمی کے بعد حکومت کو عارضی اقدامات سے ایک قدم آگے بحالی کے فریم ورک یعنی طویل مدتی حکمت عملی کو اختیار کرنا چاہئے تھا لیکن سیلاب سے متاثرہ افراد اب بھی مشکلات کا شکار ہیں اور اِن مشکلات و بحران کو کم کرنے کے لئے زیادہ بڑے پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہے۔سیلاب ایک قدرتی آفت تھی لیکن اِس کے بعد متاثرین کو بے یارومددگار چھوڑنا مسئلے کا زیادہ
گھمبیر بنادیتا ہے، اس صورت حال نے ایک بحران کو دوسرے زیادہ بڑے انسانی بحران میں بدل ہے جبکہ آفت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب متاثرین کو فوری ضروریات فراہم کرنے کے بعد بحالی کی کوششیں تیز رفتاری سے شروع ہونی چاہئیں تھیں۔ خاص طور پر سندھ کی صورتحال اب بھی خراب ہے اور لوگ اب بھی سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چار ماہ میں اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ایجنسیوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں اور اِس کی شدت کا اندازہ لگانے نیز بحالی کے لئے ترجیحی علاقوں کی نشاندہی کے لئے مطالعہ کیا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ کام بھی سست روی کا شکار ہے۔ سیلاب متاثرین جو پہلے ہی غریب تھے حالیہ آفت نے اُنہیں انتہائی غربت میں دھکیل دیا ہے اور کسی
قابل احترام روزگار کی تلاش میں شہری مراکز کا رُخ کر رہے ہیں۔ ایسے متاثرین بھی دیکھے گئے جو جو صرف زندہ رہنے کے لئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ حکومت جو نقد رقم بطور امداد ادا کرتی ہے وہ اِس قدر کم ہوتی ہے کہ ایک کنبے کی ہفتہ بھر کفالت بھی نہیں ہو پاتی۔ سیلاب متاثرین کی معیشت و معاشرت بحال کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سیلاب زدہ زمین فوری طور پر اور ازخود قابل کاشت نہیں بن جاتی ہے بلکہ اس کی تیاری کرنا پڑتی ہے لیکن ایسی کوئی بھی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ کسان صرف اُسی وقت بوائی کرسکتے ہیں جب مٹی تیار ہوجائے اور اس کے لئے انہیں مالی و تکنیکی وسائل کی ضرورت ہے۔ بے زمین کسانوں کے ذریعہ معاش کو کم از کم پچھلی سطح پر بحال کرنے کے لئے فوری اقدامات و انتظامات کے بغیر لاکھوں افراد کو غربت کی دلدل سے نہیں نکالا جا سکے گا۔