جو ہر قابل کا انخلا ء

 میڈیا میں اس بات کا چر چا ہے کہ جو ہر قابل کا انخلاء ہو رہا ہے  اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوان ملک سے با ہر جا رہے ہیں یو رپ، امریکہ، چین اور عرب مما لک کے سفارت خا نوں پر ہر وقت ویزا لینے والوں کی قطا ریں لگی ہو تی ہیں کچھ لو گ اس میلان اور رجحا ن کو اعلیٰ تعلیم یا فتہ نسل کی ما یو سی قرار دیتے ہیں، کچھ لو گ کہتے ہیں کہ نئی نسل میں وطن کی خد مت کا جذبہ ما ند پڑ گیا ہے ملک کی سرکاری یو نیور سٹیوں، بڑے ہسپتالوں اور سائنس یا ٹیکنا لو جی سے وابستہ اداروں میں خدمات انجام دینے والے با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یا فتہ نو جوانوں کے ملک سے با ہر جانے کی اصل وجہ پیشہ وارانہ امور میں اُن کی دلچسپی ہے اور یہ بُری با ت نہیں، بہت اچھی بات ہے ملک سے با ہر جا کر انسا نی وسائل کو ترقی ملتی ہے اور پا کستان کی نئی نسل دنیا میں نا م پیدا کر رہی ہے یہ وطن سے محبت کی کمی اور جذبہ خدمت کی کمی نہیں بلکہ خو ب سے خو ب تر کی تلا ش ہے جو اعلی تعلیم یا فتہ نو جوانوں کو بیرون ملک جا نے  کے مواقع ڈھونڈ نے پر مجبور کر تی ہے اس  کے بہت سے عوامل ہیں۔ اگر اعلیٰ تعلیم یا فتہ نو جوانوں کو بیرون ملک جا نے سے روکنا ہے توہمیں نوجوانوں کو ملک کے اندر تعلیم اور کا م کیلئے ساز گار ماحول مہیا کرنا ہو گا ایک نو جوان نے نارتھمپٹن سے انجینئر نگ کی اعلیٰ ڈگری حا صل کی خد مت کے جذبے سے سر شار ہو کر ملک واپس آیا دو سال ملک میں رہا اس کو سر کاری اور نجی شعبے میں ایسا ادارہ نہیں ملا جہاں وہ اپنی مہا رت سے کام لے سکے دو سالوں تک بر طا نیہ کی یو نیور سٹی سے اس کو واپس آنے اور کام کرنے کی پیشکش ہو تی رہی اور بلاخر چلا گیا اگر اُسے ساز گار فضا میں اپنی مہارت سے کا م لینے کا مو قع ملتا تو وہ خاندان سے بچھڑ نا ہر گز قبول نہ کر تا ایک خا تون تر کی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کر کے وطن واپس آگئی۔تر کی میں اس نے جس پرا جیکٹ پر تحقیقی کام کیا تھا یہاں اُس کا م کو جا ری رکھنا چاہتی تھی انہوں نے چار بڑی یو نیور سٹیوں میں گھوم پھر کر جا ئزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ پرا جیکٹ انڈسٹری کے لئے کا رآمد تھا ہماری کسی بھی یونیورسٹی میں انڈسٹری کے ساتھ ربط و تعاون کا کوئی امکان نظر نہیں آیا، خا تون کو چائنہ کی یونیورسٹی نے پو سٹ ڈاکٹر یٹ ریسر چ کی آفر کرتے ہوئے اس کے پرا جیکٹ سے فائدہ اٹھانے میں مسرت اور خو شی دکھا ئی پا کستانی خاتون تر کی سے آئی تھی چائینہ کا ویزا لیکر ملک سے با ہر چلی گئی۔ کیمسٹری، زراعت اور ارتھ سائنسز میں امریکہ اور یو رپ کی یو نیور سٹیوں سے پی ایچ ڈی کر کے واپس وطن آنیوالے یہاں آکر اپنا تحقیقی کام جا ری نہیں رکھ سکتے۔ میں نے 18بڑے سکا لروں سے پو چھا کہ آپ نے پاکستان کو چھوڑ نے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ان کا جواب یہ تھا کہ ہمارے ریسرچ کیلئے ایسی لیبارٹری کی ضرورت ہے جو 18سے 24گھنٹے کھلی رہے اور بجلی کی تر سیل میں خلل نہ آئے۔ہم دو سال تک اپنی ریسرچ نہ کر یں تو پر اجیکٹ بند ہو جا ئیگا۔ نیا پرا جیکٹ شروع کرنے کی گنجا ئش نہیں ہو گی ہماری ٹریننگ ہماری اعلیٰ تعلیم اور ہماری تحقیقی صلا حیت اپنی موت آپ مر جا ئیگی اور ہم اپنی محنت کو یو ں بیٹھے بٹھا ئے ضا ئع نہیں کرنا چاہتے اس لئے ملک چھوڑ نے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ملک کی چار بڑی یونیورسٹیوں کے فیکلٹی آف سائنسز میں جا کر ڈین صاحبان سے ملا قات کرنے پر مزید حقائق سامنے آئے ملک کی 27سر کاری یو نیورسٹیوں میں سے 24یو نیور سٹیوں کو 2007میں آخری بار کیمیکل اور آلا ت کی خریداری کے لئے گرانٹ ملی تھی۔اس کے بعد 15سال گزر گئے آدھے سے زیادہ کیمیکل خر چ ہوئے جوباقی بچے وہ زائد المیعاد ہوگئے۔ ریسرچ کرنے والوں کو ایسے تجربے بھی کرنے ہوتے ہیں جو مسلسل 24گھنٹے بجلی سے چلنے والی مشینوں پر ہو تے ہیں ہمارے ہاں 24گھنٹوں میں کبھی5گھنٹے اور کبھی 10 گھنٹے بجلی کی لو ڈ شیڈنگ ہو تی ہے اس لئے ہمارے ہاں ریسرچ کی سہو لیات دستیا ب نہیں ہیں‘یہ 70سال اور 52سال پرا نی یو نیو ر سٹیوں کا حال ہے یہی حال ہمارے بڑے ہسپتالوں اور میڈیکل یو نیور سٹیوں کا ہے۔ بڑی بڑی ڈگریاں لیکر یورپ اور امریکہ سے آنے والے پا کستانی ڈاکٹروں کو ہمارے ہاں کام کے مواقع نہیں ملتے اس لئے جو لو گ وطن کی خد مت کرنے کا جذبہ لیکر آتے ہیں وہ مجبور ہو کر ملک چھوڑ دیتے ہیں اگر اعلیٰ تعلیم یا فتہ نو جوانوں کو با ہر جا نے سے روکنا ہے تو ہمیں  بہت کچھ بدلنا ہوگا۔