میں انتظار کی حالت میں وہاں سڑک کنارے کھڑا تھا۔ گاہے احساس ہوا کہ سات منٹ تو ہو ہی گئے ہیں۔جانے اب کتنا انتظار کرنا ہوگا۔یہ انتظار بھی بہت شدید چیز ہے پھر تکلیف دہ بھی ہے۔جانے اور کتنا وقت لگے گا۔ پھر مجھے اس پر حیرانی ہوئی کہ میں یہاں کھڑے سوچ بھی کیا رہا ہوں۔ یہ شہر کی بڑی دورویہ سڑک تھی۔میں برلبِ سڑک کھڑے سوچنے لگا تھا۔ کیونکہ سوچنے کا بھی تو ہم لوگوں کے پاس وقت نہیں رہا۔یہی وقت ملا تھا اور مجبوری میں ملا تھا۔ کیونکہ جی تو نہیں چاہ رہا تھا کہ سوچوں اورعبث وقت ضائع ہو۔ مگر میں سمجھتا ہوں سوچنے کے لئے وقت ضرور نکالنا چاہئے۔ اس سے ذہن بہت کھلتا ہے۔دماغ کی کھڑکیوں سے تازہ ہوا آنے لگتی ہے۔حبس زدہ ماحول میں جسم و جاں کو تکلیف ہوتی ہے۔صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ سڑک پر دو اطراف سینکڑوں گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ میں سوچنے لگا کہ اگر یہاں چوبیس گھنٹے کھڑا رہوں گا اور گاڑیوں وغیرہ کی تعداد گنوں گا کہ کیا کیا کچھ یہاں سے گزرتا ہے تو شاید لاکھوں کا شمار بن جائے۔کسی وقت بھی اس سڑک کو نہیں دیکھا کہ یہ خالی ہو۔ ہاں کورونا کے دنوں میں تو پورا شہر سنسان تھا۔ پھر کسی بھی سڑک پر دن کے بارہ بجے بھی کچھ نہ تھا۔بلکہ میں نے تو جی ٹی روڈ پر دو اکیلے جاتے ہوئے گدھے بھی دیکھے تھے۔بس سڑک خالی تھی اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔میں اس سوچ میں تھا کہ آخر یہ سڑک کس طرف جاتی ہے۔مگر ایک گونہ سوچ کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ سڑک تو کہیں بھی نہیں جاتی۔بلکہ اس کے اوپر سے ہو کر لوگ کہیں نہ کہیں جاتے ہیں۔یہ تو یہیں پڑی رہے گی۔ پھر اگر اس پر سے ہو کر لوگ جاتے ہیں تو نہ صرف جاتے ہیں بلکہ آتے بھی ہیں۔جو لوگ سڑک کو استعمال کر کے آگے بڑھتے ہیں وہ جب اپنی منزل آ جائے تو اسی سڑک سے اتر کر اطراف کی ساتھ ملی ہوئی سڑکوں پر ہو لیتے ہیں۔ اپنے اپنے گھر یا دفتر دکان پر پہنچ جاتے ہیں۔جہاں میں کھڑا تھا وہیں تو گاڑیاں آتی جاتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر میں جہا ں کھڑا ہوں وہاں رات کو آؤں تو بھی یہاں سے گاڑیاں گزرتی ہیں۔یہ سڑک دن بھر اور رات کے عالم میں مصروف رہتی ہے۔دنیا بھر میں یونہی ہو رہا ہے۔ اگر یہاں دن ہے تو کہیں رات کے بارہ بجے ہوں گے وہاں بھی اسی طرح ٹریفک کا بہاؤ ہو گا۔وہاں رات ہو تو یہاں دن ہوگا۔۔غرض یہ کہ ہمہ وقت اس سڑک پر او راس طرح کی ہر سڑک پر سے گاڑیاں گزر کر اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہوتی ہیں۔پورے شہر میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔پوری دنیا میں سڑکیں اسی طرح بل پیچ کھاتی ہوئی کہیں سے کہیں موڑتی کھاتی رہتی ہیں۔ دوسرے ترقی یافتہ شہرو ں میں تو ایک پُل کے اوپر ہی دوسرا پُل ہے اور یہ سلسلہ بہت پلوں تک محدود ہی نہیں آگے اور پُلوں کے ساتھ بھی مل جاتا ہے۔پُل بھی کیا ہے وہ راستہ تو نہیں۔نظر تو آتا ہے کہ یہ راستہ ہے۔مگر پل کا کام دوالگ اور جدا سڑکو ں کو آپس میں ملانا ہوتا ہے۔بندہ پُل کا کردار کیوں نہ ادا کرے۔ دو بچھڑوں کو آپس میں ملوادے۔یہی تو اس ویرانے میں انسان کا حقیقی رول ہے۔وہ اگر دو گروپوں کو دو لڑنے والوں کو دو ایک دوسرے سے جدا انسانوں کو آپس میں گلے ملا دے تو شاید اپنے ہونے کا اور اپنے انسان ہونے کا ثبوت دے سکتا ہے۔مگر یہ خیال ضرور ہونا چاہئے کہ پُلوں کے نیچے سے بہت زیادہ پانی بہہ نہ جائے۔وہ وقت نہ آجائے کہ مڑ کر ملنا مشکل ہو جائے۔کیونکہ دریا کا پانی واپس موڑ نہیں کاٹتا۔میں سوچ رہا تھا کہ سڑک ہمارے انسانو ں کے ہاں تہذیب کی ایک زندہ نشانی ہے دریا ہوں یا سڑک ہو ایک ہی کام کرتے ہیں۔دریا سے دور تو رہا جاسکتا ہے مگر زیادہ دور نہیں جاسکتے۔اسی طرح سڑک کے کناروں پر دور تک انسانی بستیاں تو ہوتی ہیں مگر زیادہ دور نہیں جا سکتیں۔ اس لئے کہ ہمیں دریاؤں کی اور سڑکوں کی ضرور ت ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی دریاؤں کو اورسڑکوں کو اپنا نہیں سمجھا۔ اس کے کردار کو اگر سوچا او رسمجھا ہوتا تو ہم ان کے قدر دان ہوتے۔ان کو دل و جان سے چاہتے ان کو نقصان ہو ہم کسی طرح گوارا نہ کرتے۔