دنیا کے تین ممالک کے پانچویں نسل سے تعلق رکھنے والے چار مشہورترین جنگی جہازجن میں امریکہ کے ایف22،ایف35،چین کا جے 20اورروس کا ایس یو57شامل ہیں بیس سال قبل ظہور پذیرہونے کے باوجود آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں لیکن اس حقیقت کے علی الرغم کم از کم دنیا کے نو ممالک ایسے ہیں جو اپنے طور پر یا دوسرے ممالک کے اشتراک سے چھٹی نسل کے جنگی طیارے تیارکرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ ان پروگراموں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں لیکن اس حوالے سے جو کام کیا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے ممالک کو توقع ہے کہ آنے والی دہائیوں میں چھٹی نسل کے جیٹ طیارے ان کے بیڑے کا ایک اہم حصہ ہوں گے۔ عام طور پرپانچویں نسل سے مراد ایسے ہوائی جہاز ہیں جنہوں نے 1990 کی دہائی کے اواخر یا 2000 کی دہائی کے اوائل میں پرواز شروع کی، یہ طیارے چوتھی نسل کے جیٹ طیاروں کے مقابلے میں بالکل نیا ڈیزائن رکھنے کے علاوہ سٹیلتھ خصوصیات کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔اسی طرح چھٹی نسل کے جنگی طیاروں کی خصوصیات تاحال کم ہی دستیاب ہیں کیونکہ ابھی تک اس نسل کاکوئی باضابطہ جنگی ہوائی جہاز منظر عام پر نہیں آیاہے تاہم اس بات پر اتفاق ہے کہ چھٹی نسل کے جیٹ طیاروں میں متعدد نئی یا جدید خصوصیات شامل ہوں گی جن میں ایک ماڈیولر ڈیزائن جو بغیر کسی رکاوٹ کے اپ گریڈہوسکتاہو، جامع نیٹ ورکنگ کی صلاحیت، ڈرون کے ساتھ کام کرنے کی استعداداور سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس ہوگا۔ یہ ایک برسرزمین حقیقت ہے کہ پانچویں نسل کی خصوصیات کے ساتھ جنگی ہوائی جہاز تیار کرنے کے لیے جدید تکنیکی جانکاری، ایک جدید صنعتی بنیاد، اور سب سے بڑھ کر بڑے پیمانے پر مالی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے نتیجتاً زیادہ تر ممالک یاتو چوتھی نسل کے ماڈلز پرگزارہ کررہے ہیں یاپھرکسی ایسے ملک سے پانچویں نسل کے جیٹ طیارے خرید رہے ہیں جو انہیں پہلے ہی تیار کر چکا ہے۔اس بات
میں کوئی دوآراء نہیں ہیں کہ پانچویں نسل کے جیٹ طیاروں کی طرح چھٹی نسل کے طیاروں کو تیار کرنے کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اس لیے بہت سے ممالک اخراجات کوآپس میں بانٹنے اور ترقیاتی وقت کو کم کرنے کے لیے مل کر کام کررہے ہیں۔اب تک منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق امریکہ چھٹی نسل کے دو منصوبوں پرکام کررہا ہے جن میں ایک فضائیہ اوردوسرا بحریہ کے لیے ہے۔ان دونوں کو باضابطہ طور پر نیکسٹ جنریشن ایئر ڈومیننس یا این جی اے ڈی کہا جاتا ہے۔یہ دونوں پروجیکٹ فی الحال ایک سربستہ راز ہیں جن کے بارے میں یہ
بھی معلوم نہیں ہے کہ کون سی کمپنیاں یاادارے انہیں تیارکریں گے یاپھر وہ کیسے نظر آئیں گے۔ البتہ اس حوالے سے اب تک جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ این جی اے ڈی ایک نئے لڑاکا طیارے سے زیادہ موثر ہوگا۔ یہ مختلف نظاموں کا ایک مجموعہ ہوگا جس کا مقصد امریکی فضائی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔ فیوچر کامبیٹ ایئر سسٹم چھٹی نسل کا ایک اورجیٹ پروجیکٹ ہے جس کا اعلان فرانس اور جرمنی نے 2017 میں کیا تھا اور سپین نے 2019 میں اس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ایف سی اے ایس فضائی غلبہ کے لیے نظاموں کا ایک خاندان تیار کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے جونیکسٹ جنریشن فائٹر (این جی ایف) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ این جی ایف کے پاس ایک نیا انجن، نئے ہتھیاروں کے نظام، جدید سینسرز، سٹیلتھ ٹیکنالوجی اور بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز اور فضائی جنگی کلاؤڈ نیٹ ورک سے منسلک ہونے کی صلاحیت ہوگی۔اس جیٹ کا مقصد فرانس کے رافیلز اور جرمنی اور سپین کے بنائے گئے یورو فائٹر ٹائفون کی جگہ لینا ہے۔ واضح رہے کہ این جی ایف چھٹی نسل کاواحد یورپی جیٹ طیارہ نہیں ہے۔ ٹیمپیسٹ اس ضمن میں برطانیہ اور اٹلی کی ایک اورکاوش ہے جو 2015 میں شروع ہوئی اور 2018 میں باضابطہ طور پر منظر عام پر آئی۔ اس منصوبے میں جاپان کے چھٹے جنریشن منصوبے F-X کی شمولیت کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے گلوبل کامبیٹ ایئر پروگرام رکھ دیا گیاہے۔ مبصرین کاخیال ہے کہ چھٹی نسل کا کوئی لڑاکا پروگرام اتنا خفیہ نہیں ہے جتنا کہ چین اور روس کا ہے۔2019 میں چین کے سرکاری چینگڈو ایئر کرافٹ انڈسٹری گروپ کے چیف ڈیزائنر وانگ ہائیفینگ نے کہاتھا کہ چین نے اگلی نسل کے لڑاکا طیارے کے لئے تحقیق شروع کر دی ہے اور یہ منصوبہ 2035 تک پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔گوکہ روس کے چھٹی نسل کے پروگرام کے بارے میں بھی کم معلومات دستیاب ہیں ہے لیکن ماسکواس حوالے سے 2016 ہی میں اپنے مجوزہ لڑاکا طیارے کے بلیو پرنٹس کا اعلان کرچکاہے۔اسی طرح جنوری 2021 میں روس کی سرکاری ملٹری ٹیکنالوجی کمپنی Rostec نے اعلان کیا تھا کہ وہ مگ 31کے لئے اگلی نسل کا متبادل مگ 41 تیارکررہاہے لیکن اس کی صلاحیتوں اور خصوصیات کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔کہاجاتاہے کہ جہاں چین فوجی ہوا بازی میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے وہیں روس کی اگلی نسل کے جیٹ طیارے تیار کرنے کی صلاحیت سکڑ رہی ہے۔ یوکرین پر حملے کی وجہ سے ماسکو پر عائد پابندیاں ممکنہ طور پر آنے والے برسوں میں اس کی ایرو سپیس انڈسٹری کو مزیدمتاثر کر سکتی ہیں۔تاہم روس کے پاس جس قسم کی ٹیکنالوجی کا تسلسل ہے اور ایک منظم ڈھانچہ موجود ہے اس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ عارضی مشکلات کے باوجود قومی ضرورت کے تحت اس حوالے سے پیچھے رہنا گوارہ نہیں کرے گا۔