سفر تعلیم اور انتظامی فیصلے 

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ہمارے ہاں سائنسی تجزیہ گاہوں میں اگر تجربات نہیں ہوتے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہما رے ہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی تجربات نہیں کئے جاتے‘ ہمارے ہاں ہر آنے والی حکومت یا اپنی حکومت کے دورانیہ کے دوران میں ہر حکومت نت نئے تجربات کرنے کی عادی رہی ہے‘ اس میں شعبہ صحت ہو یا شعبہ تعلیم یا پھر انتظامی امور یا دیگر اصلاحات ان سب میں بنیادی غایت یہی ہوتی ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ جھپٹنے اور پلٹنے کیلئے لہو گرم رکھنے کو ایک بہانہ ملا رہے۔ ہماری موجودہ حکومت اس ضمن میں اگر چہ اپنے تمام تر خلوص کیساتھ جو کچھ کر رہی ہے اس پر معترضین کے اعتراضات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا اسکے اس خلوص کا نتیجہ عوامی سطح پر مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے یا ان اصلاحات کا ہدف واقعی حاصل ہو رہا ہے؟ہمیں اس ضمن میں قابل تکریم عدالت عالیہ کے حالیہ فیصلے پر اس حوالے سے بات کرنی ہے کہ ہمارے تعلیمی بورڈز کے منتظمین کی سوچ اور فکر کا دائرہ کار کیا ہے؟ عدالت کے فیصلے کے مطابق آٹھویں کے امتحان کو
 بورڈ کی سطح پر لینے سے منع کر دیا گیا ہے‘عدالت کے اس فطری فیصلے کے آنے تک والدین اور اساتذہ کو جو اذیت اٹھانا پڑی کیا اس کا ازالہ ہمارے بورڈ کے منتظمین کر سکیں گے؟  اس سلسلے میں بچوں نے جو ذہنی کرب اٹھایا کیا ہماری نگاہ اس کی طرف جائے گی؟اس میں شک نہیں کہ نئے دور کے تقاضے نئے ہوا کرتے ہیں اور ان سے نمٹنے کیلئے طرز کہن پر اڑنا زندہ قوموں کا شیوہ
 نہیں ہوتا لیکن کچھ اصول بنیادی ہوا کرتے ہیں‘مثلاً بھوک میں کھانا فطری عمل اور بنیادی اصول‘ اب اس کھانے کیلئے آپ ایک چھولے کی پلیٹ اور روٹی سے بھی اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں اور اس کیلئے پانچ ستاری ہوٹل میں آپ تین ہزار روپے میں بھی سیر ہو سکتے ہیں‘ ہمارے ہاں گزشتہ تین سے چار برسوں میں تعلیمی بورڈز کی سطح پر جو بدانتظامی نظر آتی ہے اس نے پرائیویٹ اور سرکاری دونوں سکولوں کو عجیب ہونق صورتحال سے دوچار کیا ہے‘ کبھی پانچویں کے بورڈ‘کبھی آٹھویں کا بورڈ امتحان‘ کبھی نویں اور دسویں کا اکھٹے امتحان اور کبھی گیارہویں اور بارہویں کے امتحان کیلئے مشق ستم۔ بورڈ کے منتظمین یقینا اپنا ہنر آزما رہے ہیں مگر اسکا نشانہ دراصل ہمارے بچے بن رہے ہیں‘والدین اپنے اندیشہئ ہائے دور دراز میں مبتلا ایسی صورتحال سے گزر رہے ہیں کہ وہ سکول کے اساتذہ کو مطعون ٹھہراتے اور چونکہ بورڈ انتظامیہ کے گریبان کو نہیں پکڑ سکتے لہٰذا اسی تنخواہ پر کام کرنے کیلئے مجبور ہیں۔ آٹھویں کے بورڈ کے امتحان کیلئے نئی کلاسز کے تین ماہ گزر چکے اور اگلے دو تین ماہ کی چھٹیوں کے بعد تقریباً سال کا آدھا دورانیہ ختم ہو جائیگا‘ اب اگلے چھ ماہ میں یقینا وہی کچھ پڑھایا جائے گا جسکی ترتیب پچھلے تعلیمی سال تک موجود تھی‘ ہمیں یہ باتیں شاید سمجھ نہیں آتیں یا بورڈ انتظامیہ کا فہم ہمارے دائرہ فکر سے بہت زیادہ
 ہے کہ وہ جو کچھ سوچتے ہیں اسے اپنی قوت نافذہ سے نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ہمارے ہاں چونکہ والدین کی رائے سے مبرا ہو کر اور کسی بھی جواب طلبی کے خطرے سے صرف نظر کرتے ہوئے انتظامیہ ہر وہ کچھ کرنے کی عادی ہے جسے قانون بھی قبول نہیں کرتا‘جس کی بہترین مثال قابل تکریم عدالت کا موجود ہ فیصلہ ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے کے بعد بورڈز انتظامیہ سے
 یہ پرسش کی جا سکے کہ جو کچھ انہوں نے کہا اور کروانے کی کوشش کی اگر وہ غیر قانونی ہے اور اب یقینا ہے تو اس کیلئے سکولوں‘ اساتذہ‘ والدین اور بچوں کے اس وقت اور رقم کے ضیاع کو کون پورا کرے گا؟ہم ملکی دولت لوٹنے والوں کو تو ضرور پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں لیکن تعلیمی میدان کے ایسے فیصلے جو نئی نسل کو مستقبل کے کردار کی ادائیگی میں کمزوری پیدا کریں ایسے فیصلے کیونکر کئے جاتے اور اس کیلئے ذمہ دار افراد کیلئے سزا کا تصور کیوں بے معنی ہے؟کیا ہم سزا کے اس تصور کو یہیں سے عملی جامہ پہنانا شروع نہیں کر سکتے؟ہم ایک ڈاکٹر کو تو اس لئے مطعون ٹھہراتے ہیں کہ اس نے تشخیص ٹھیک نہیں کی یا پھر ایک وکیل پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے کیس کو صحیح طور پر پیش نہیں کیا لیکن کیا انتظامیہ پر بھی نکتہ اعتراض اٹھایاجاسکتا ہے جو وقت‘ دولت اور مستقبل کے ضیاع میں ملوث رہی ہو۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومتی نیت ہدف سے مبرا نہیں ہوتی لیکن اس کیلئے جو سنگ ہائے میل راستے کا تعین کرتے ہیں ان کی طرف اگر نظر نہ اٹھے تو سفر کی ہمواری سے متعلق کئی خدشات پیدا ہو جاتے ہیں جسکی جانب توجہ ضروری ہوا کرتی ہے۔ بورڈ کے ایسے فیصلے نت نئی صورتحال پیدا کر رہے ہیں ان کا ازالہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم کا وہ وژن جو انہوں نے انتخابات سے پہلے دیا تھا اس کے اعادے کیلئے بھی نگاہیں شعبہ تعلیم کی طرف ہی اُٹھیں۔