شہبازشریف حکومت ایک طرف بین الاقوامی اداروں کو پاکستان سے سیلاب سے آنے والی تباہی بارے جامع انداز میں آگاہ کررہی ہے تو وہیں اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام بھی زور وشور سے جاری ہے،مثلاً وزیر اعظم پاکستان نے گذشتہ روز صحبت پور کا دورہ کیا، مذکورہ علاقے کا شمار سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں میں کیا جاتا رہا ہے،اس موقع پر شہبازشریف نے متاثرین اور قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لئے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ جب انہوں نے ماضی میں اس علاقہ کو دیکھا تو یہ مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا تھا مگر وفاقی اور صوبائی حکومت کے تعاون سے علاقہ زندگی کی جانب لوٹ آیا ہے،متاثرین کی بحالی کا عمل بھی جاری ہے‘ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ اس میں دوآراء نہیں کہ حکومت کے وسائل محدود ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ پی ڈی ایم اور میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی مکمل بحالی تک ہرگز چین سے نہیں بٹھیں گے‘9 جنوری کو انٹرنشینل آن کلائمیٹ ریزلیینٹ پاکستان کی کانفرنس کا انعقاد ہونا بلاشبہ بڑی کامیابی ہے، مذکورہ کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سربراہ نہ صرف خود شریک ہوں گے بلکہ وہ دیگر اہم ممالک کے نمائندوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں، یقینا پاکستان میں سیلاب سے آنے والی تباہی پر ہمارے دوست ملک نے جہاں ہنگامی بنیادوں پراسلام آباد کی مدد کی‘ وہی متاثرین کی مکمل بحالی کے کام میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں، اس ضمن میں علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی امداد قابل تحسین ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تادم تحریر لاکھوں خاندان اب بھی امداد کے مستحق ہیں، موسم سرما کے باوجود ہزاروں افراد کو اپنی چھت بھی تاحال میسر نہیں، دراصل یہی وہ چیلنج ہے جس سے کامیابی سے نمٹنے کے لئے حکومت ملک کے اندر ہی نہیں علاقائی اور عالمی محاذ پر اپنا مقدمہ کامیابی سے پیش کررہی ہے۔ وطن عزیز میں سیلاب سے متاثر ہونے والے ہزاروں گھروں کے مکین آج بھی امداد کے منتظر ہیں، سیلابی پانی نے جس قدر متاثرین کے گھروں کو نقصان پہنچایا ہے ان کی مرمت سیلاب زدگان کی برداشت سے باہر ہے چنانچہ وہ منتظر ہیں کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر ان کی امداد کرے تاکہ وہ اپنی چھت مرمت کرواسکیں،ایک اندازے کے مطابق حالیہ بارشوں سے پاکستان میں کم وبیش 10 لاکھ گھر تباہ ہوئے، ادھر وزیر اعظم شہبازشریف کہہ چکے ہیں کہ متاثرین کی امداد حکومت کا کوئی احسان نہیں بلکہ اس کا فرض ہے‘عالمی موسیماتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، اقوام متحدہ سمیت عالمی رہنما اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عالمی موسیماتی تبدیلیوں نے پاکستان کو قربانی کا بکرا سمجھا، پاکستان میں صنعت کسی طور پر اس مقام تک نہیں پہنچی جہاں وہ موسیماتی تبدیلی میں اپنا کوئی منفی حصہ ڈالے سکے۔سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ سمیت دیگر عالمی برداری پاکستان کی مدد کیونکر کریں گے‘اعداد وشمار گواہ ہیں کہ ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے کہنے کو تو ترقی پذیر ممالک کی معیشت بہتر بنانے کے دعویدار ہیں مگر یہ ہرگز سو فیصد سچ نہیں، ہم باخوبی جانتے ہیں کہ عصر حاضر کی معیشت سیاست پر غالب آچکی ہے۔