پاکستان زرعی ملک لیکن غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہے جو اپنی پوری آبادی کیلئے وافر مقدار میں خوراک پیدا کرنے کے قابل نہیں رہا جبکہ زراعت ایسا شعبہ ہے کہ اگر اِس پر خاطرخواہ توجہ دی جائے تو پاکستان زرعی اجناس کی برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کمانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے پاکستان میں ہر سال خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھنے کا عمل بھی سارا سال جاری رہتا ہے کیونکہ جب اجناس درآمد کی جاتی ہیں تو اُن کی قیمتوں کا تعین مقامی مارکیٹ نہیں بلکہ عالمی منڈی کے مطابق طے کی جاتی ہیں خوراک کی یہ قلت جو فی الحال مسئلہ ہے لیکن اگر اِسے حل نہ کیا گیا تو بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے پاکستان میں خوراک کی پیداوار اور خوراک کے استعمال سے متعلق عوام الناس کے رویئے اسراف پر مبنی ہیں کھانے پینے کی بچت کا تصور نہیں پایا جاتا بلکہ مالی طور پر مستحکم خاندانوں میں خوراک کے ضیاع کو بطور فیشن اختیار کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک خاندان کی جانب سے شادی کی تقریب میں شرکت کے موقع پر مختلف اقسام کے کھانوں سے بھرے برتن دیکھے گئے جن سے تواضع کرنے والوں نے اپنی ضرورت سے کئی گنا زیادہ کھانا حاصل کیا اور پھر کھانے سے بھری ہوئی پلیٹیں چھوڑ گئے۔ اسلامی تعلیمات میں واضح ہدایات موجود ہیں کہ 1: ایک وقت میں ایک ہی قسم کا کھانا کھایا جائے۔ 2: کھانا اُس وقت چھوڑ دینا چاہئے جب بھوک باقی ہو۔ 3: کھانا اپنی ضرورت کے مطابق (کم سے کم) لیا جائے۔ 4: کھانا کھاتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور صرف اپنے سامنے سے کھانا حاصل کیا جائے۔ ہاتھ پھیلا کر کسی دوسرے کے آگے سے کھانا نہ اُٹھایا جائے۔ 5: کھانا کھاتے ہوئے لقمے اچھی طرح چبائے جائیں۔ 6: کھانے کے دوران پانی نہ پیا جائے۔ 7: کھانے کے بعد پانی نہ پیا جائے اور 8: کھانا اور پانی کھڑی حالت میں نہ لئے جائیں‘خوراک انسانی بقاء کیلئے سب سے اہم ضروریات میں سے ایک ہے‘ یہ ہماری بنیادی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور اس وجہ سے اسے اللہ کا شکر ادا کرنے کے احساس کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ خوراک کا ایک دانہ بھی ضائع نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کھانے کے ضیاع سے منع کرتا ہے‘خوراک کا ضیاع پاکستان کا قومی ہی نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہے۔ جب ہم ”خوراک“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اِس سے مراد وہ غذا ہوتی ہے جو انسانی استعمال کیلئے موزوں ہے۔ دنیا بھر میں پیدا ہونیوالی خوراک کا ایک تہائی حصہ بغیر کھائے پھینک دیا جاتا ہے‘ جسکی وجہ سے ماحول پر بوجھ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر عالمی سطح پر خوراک کے ضیاع کو روکا جائے تو اِس سے بھوک اور غربت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اِس سے کھانے پینے کے گھریلو اخراجات بھی کم ہو سکتے ہیں‘ خوراک کے ضیاع کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال دیگر ممالک کی نسبت زیادہ بلکہ ’انتہائی‘ گھمبیر دکھائی دیتی ہے‘ ہینڈلنگ‘ کھانا پکانے‘ کھپت وغیرہ کے دوران ہر مرحلے پر خوراک کی بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے‘ دوسری جانب لاکھوں کروڑوں لوگ جو خط غربت و افلاس سے نیچے ایک مجبور و لاچار زندگی بسر کر رہے ہیں اُنہیں لاحق غذائی عدم تحفظ ہر دن بڑھ رہا ہے۔ درحقیقت مہمانوں کو کھانا پیش کرنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور اکثر باہمی تعلقات کو شروع کرنے اور مضبوط بنانے کیلئے کھانے پینے کو بطور ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بہت کم کھاتے ہیں لیکن بہت زیادہ ضائع کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں یا اُنہیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا ضائع کر رہے ہیں۔ اِس قسم کا رویہ شادی بیاہ کے مواقعوں پر عموماً دیکھنے میں آتا ہے جب کھانے کی طلب میں مہمان اپنی پلیٹوں کو گنجائش سے زیادہ بھر لیتے ہیں لیکن آخر میں‘ ان کی پلیٹوں پر موجود تقریباً آدھا کھانا باقی رہ جاتا ہے! یہی صورتحال ملک کے سبھی چھوٹے بڑے ہوٹلوں حتیٰ کہ سڑک کنارے کھانے پینے کی دکانوں‘ ٹھیلوں اور اجتماعات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا کوڑے دانوں میں ڈال دی جاتی ہیں‘ یہ سراسر اسراف ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی بڑے شہر میں چہل قدمی کرے تو اسے فاسٹ فوڈ کے ڈھابے جا بجا نظر آئیں گے جہاں نوجوانوں کی بھیڑ ہو گی اور اُن کے کوڑا دان ضائع شدہ کھانے سے بھرے ملیں گے لوگ آدھ کھائے برگر‘ پیزا‘ چپاتیاں اور دیگر پکی ہوئی چیزیں چھوڑ دیتے ہیں۔ کھانا ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے جذبے کیساتھ کھایا جائے ورنہ یہ ناشکری میں شمار ہوگا‘آج اگر پاکستان معاشی مشکلات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت خطرات کا سامنا کر رہا ہے تو سوچنا سمجھنا اور دیکھنا ہوگا کہ کہیں اِس کا تعلق ہماری اُس ناشکری سے تو نہیں جو ہم کھانا ضائع کرنے کی صورت ہر روز کر رہے ہیں۔