زبان کا محتاط استعمال  (سید ابو یاسر)

شاہ بلیغ الدین  ریڈیو پاکستان سے نشر شدہ تقاریر میں ایک جگہ بیان کرتے ہیں کہ جو لوگ ہنسی مذاق کی خاطر دوسروں کو ذلیل کرتے اور انکا دل دکھاتے ہیں وہ بھی ظالموں میں سے ہیں ایسا مذاق جس سے کسی کا دل دکھے یا اسکا نقصان ہو اور اسکی عزت پر بن جائے، مذاق نہیں، دل آزاری ہے! اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ دل آزاری بڑاگناہ ہے جو اس طرح کا مذاق کرکے خوش ہوتے ہیں ان میں بے رخی اور سنگدلی کا مادہ ہوتا ہے بہت جلد انہیں دنیا میں ایسی ٹھوکر لگتی ہے کہ پھر وہ زندگی بھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہتے ہیں۔حضرت عثمان الخیری سے ان کے مریدوں میں سے ایک نے کہا کہ حضرت! حق تعالیٰ کا بڑا ذکر کرتا رہتا ہوں لیکن حالت یہ ہے کہ دل متوجہ نہیں ہوتا بس زبان ہی چلتی رہتی ہے کیا جانے میری حالت سنبھل بھی سکے گی کہ نہیں بڑی مایوسی ہوتی ہے۔آپ نے فرمایا، میرے بھائی! اس میں افسوس کی کیا بات ہے، تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ ایک عضو تو تمہارا مطیع ہے، ایک راستہ مل گیا ہے، اللہ دوسری سبیل بھی پیدا کردیگا، کوشش کئے جاؤ وہ وقت دور نہیں کہ زبان کیساتھ دل بھی موافق ہوجائے اخلاص‘ کوشش سے پیدا ہوتا ہے، عثمان الخیری ایک دن گھر سے نکلے کہیں جارہے تھے انکے ساتھ انکے مرید اور عقیدت مند بھی تھے جب ان پرکچرا گرا تو مریدوں کو بڑا غصہ آیا انہوں نے چاہاکہ کچرا پھینکنے والے کو برا بھلا کہیں مگر حضرت عثمان الخیری نے روک دیا۔سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے حرم کعبہ جاتے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھادیئے جاتے عثمان الخیری بھی ان اللہ کے بندوں میں سے تھے جنکے دل میں دن رات یہی تڑپ رہتی تھی کہ اسوۂ حسنہ پر عمل کریں جب انکے مریدوں نے کچرا پھینکنے والے سے لڑنا چاہا تو انہوں نے ان سب کو واپس بلایا اور فرمایا میاں! میں تو اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جسکے سرپر آگ پڑنی چاہئے تھی اس پر اگر خاک پڑی تو اس میں غصہ کیسا! یہ تو مالک کا احسان ہے کہ مجھ گنہگار کو سستا چھوڑ دیا آؤ! میرے ساتھ چلو،کہیں جانے کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہم ایک کام سے نکلے ہیں اسے پورا کرنا ہمارا مقصد ہے، راستے کی رکاوٹوں میں بھلے مانس اپنا مقصد نہیں بھولتے“اس منتخب اقتبااس کا حاصل مطالعہ ہمارا طرز عمل ہے جس میں ہم نے زبان کی لغزشوں کو نظر اندازکرنا شروع کیاہے اور اس امر پرغور نہیں کرتے کہ ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر یہ کسی کی دل آزاری کا باعث ہو تو یقینا اس پر پکڑ ہوگی۔تاہم ہم میں سے اکثر بولتے وقت اس کا لحاظ نہیں کرتے اور دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگوں کو ہنسانے کیلئے کسی دوسرے فرد پر تنقید کی جاتی ہے یا اس کی خامیوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ کسی بھی محفل میں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے کسی کی عیب جوئی کرکے اور اس کی خامیوں کو لوگوں کے سامنے ایسے طنزیہ انداز میں بیان کرکے کہ جس سے لوگ اس شخص پر ہنسیں، ہماری محفلوں میں معمول کی حالت ہے۔وہی لوگ کامیاب ہیں جو  ہر حالت میں بھی اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہیں  اور کسی کی عیب جوئی کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ ہمارے اعضاء میں سے زبان وہ عضو ہے جس کا استعمال اگر بخوبی اور احتیاط سے کیا جائے تو خیر ہی خیر ہے اور اگر اسی زبان کا استعمال غیر محتاط انداز میں کیا جائے تو دوسروں کیلئے بھی نقصان کا باعث تو ہوگا ہی خود یہ طرز عمل اپنے لئے بھی بہت سے نقصانات کا باعث ہو سکتا ہے۔