روس یوکرین: عارضی جنگ بندی

روس کی جانب سے یوکرین میں جنگ بندی کا اعلان اگرچہ 36 گھنٹوں کے لئے ہوا ہے تاہم اِس اہم پیشرفت سے دونوں ممالک کے درمیان اُن اختلافات کے حل کی اُمید پیدا ہوئی ہے جو جنگ جیسی انتہا تک پہنچنے کا باعث بنے ہیں تاہم ایسے ممالک بھی ہیں کہ روس یوکرین جنگ بندی نہیں چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ روس کی جانب سے یک طرفہ جنگ بندی کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اور دونوں ممالک کے توپ خانوں نے جنگ بندی ختم ہونے سے پہلے ہی ایک دوسرے پر گولے برسانا شروع کر دیئے تھے۔ روس یوکرائن جنگ کے دوران یہ پہلا موقع تھا جب روس نے جنگ بندی کا اعلان کیا اور اگر اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یوکرین بھی جنگ بندی کا اعلان کرتا تو اعتماد سازی کا ماحول پیدا ہونا یقینی تھا۔ روس کی جانب سے خیرسگالی کا اظہار مذہبی تہوار ”آرتھوڈوکس کرسمس“ کے موقع پر کیا گیا جسے ضائع کر دیا گیا۔ درحقیقت روس یوکرین جنگ میں ایک طرف تن تنہا روس اور دوسری طرف یورپ و امریکہ اور اِن کے اتحادی کھڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس کو غیرمعمولی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یوکرین کے اتحادی ممالک (یورپ و امریکہ) نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرین کو بکتر بند گاڑیاں اور پیٹریاٹ نامی ائر ڈیفنس سسٹم دیں گے‘ ظاہر ہے کہ یوکرائن کو اسلحے کی فراہمی اُور اِس قسم کی امداد دینے سے جنگ کی شدت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو گا۔ روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جانب سے یک طرفہ جنگ بندی کے اعلان کا احترام کر رہے ہیں جبکہ یوکرین کی افواج مسلسل گولہ باری کے ذریعے روس کو جنگ بندی ختم کرنے پر اُکسا رہی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ روس و یوکرائن میں ”آرتھوڈوکس کرسمس (سات دسمبر کے روز)“ منائی جاتی ہے اور اِس موقع پر جنگ بندی کے لئے ترکیہ کے صدر ’رجب طیب اژدگان‘ اور روسی چرچ کے رہنما ’پیٹریاارک کیرل‘ کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کی گئی تھی۔ یوکرین نے پہلے ہی اس جنگ بندی کو مسترد کر دیا تھا‘ جس پر روس یوکرین جنگ کا اختتام دیکھنے والے اُن سبھی ممالک بشمول پاکستان کو مایوسی ہوئی کیونکہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں پیٹرولیم اور اجناس کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ یوکرین کی قیادت چاہتی ہے کہ جنگ بندی کی بجائے روس اپنی افواج کا انخلأ کرے اور یوکرائن کے اُن تمام مقبوضہ علاقوں پر بھی اپنی ملکیت کے دعوے سے دستبردار ہو جائے جن کا الحاق موجودہ جنگ سے قبل روس نے کر لیا تھا۔ اِس حوالے سے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے روس کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صدر پیوٹن اِس قسم کے اقدام سے صرف مہلت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اُسے اپنی جنگی حکمت عملی پر نظرثانی میں مدد دے۔ کسی عالمی طاقت کی جانب سے روس کی نیت پر اِس طرح شک کرنے کے شواہد امریکہ اور یورپی ممالک کے پاس نہیں لیکن وہ روس کی یوکرین میں صرف شکست نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ اُسے زیرتسلط بھی دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ روس اور چین آپس میں مل کر ’بیلٹ اِینڈ روڈ اِنشی اِیٹو (BRI)‘ کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ گذشتہ سال چوبیس فروری کے روز روس نے یو کرین پر حملہ کیا تھا اور تب سے روس کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے جس نے یوکرین کے چند مشرقی اور جنوبی حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنے علاقوں کا قبضہ دوبارہ حاصل کر لیا ہے جبکہ ہر محاذ پر روس کو بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ صدر پیوٹن کی جانب سے پانچ جنوری کے روز ترکیہ کے صدر اژدگان کے ساتھ بات چیت میں جہاں چھتیس گھنٹوں کے لئے جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا وہیں یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ اگر یوکرین ”نئے علاقائی حقائق“ کو تسلیم کرے تو ماسکو اُس کے ساتھ بات چیت کے لئے بھی تیار ہے۔ وہ روس کے اس دعوے کا حوالہ دے رہے تھے کہ اس نے یوکرین کے چار علاقوں ڈونیٹسک‘ لوگانسک‘ زاپوریڑیا اور کھیرسن کو مکمل طور پر کنٹرول نہ کرنے کے باوجود ان پر قبضہ کر لیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ جنگ کا اختتام ہمیشہ مذاکرات کی میز پر ہوتا ہے۔ جاری جنگ میں روس و یوکرین کے جانی و مالی نقصانات کو 2 ممالک کے الگ الگ نقصانات کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ انسانی جانی نقصان پوری دنیا کے لئے لمحہئ فکریہ ہونا چاہئے۔