یہ ایک طویل سڑک ہے۔میرا بائیک اس سڑک پر کسی آہستہ رفتار گھوڑے کی طرح دُلکی چال میں رواں دواں تھا۔ چونکہ رش ہوتا ہے۔ اس لئے موٹر بائیک کے ہینڈل سے ہٹ کر میں نے زیادہ مضبوطی سے احتیاط کا دامن تھام رکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں یہ رش بنانے والے کسی کو بھی نہیں چھوڑتے۔اکیلے جا رہے ہوں تو زور زبردستی ہارن بجا بجا کر راستہ چھین لیتے ہیں۔گاہے گرا کر بھاگ جاتے ہیں۔میاں بیوی ہوں تو ہم نے ان کو بھی بائیک پرسے گرتے ہوئے بارہا دیکھا ہے۔کیونکہ کسی میں بھی صبر نہیں ہے۔جانے کس وقت آگے جاتا ہوا کوئی رکشہ اچانک یوٹرن کر لے۔غرض یہاں کچھ بھی ہوسکتاہے۔گھر سے نکلو تو باہر بازار وغیرہ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اس بات کو ذہن میں رکھ کر نکلو۔گھروالیاں جب میرے ساتھ سوار ہوں تو اکثر میری ڈرائیونگ ہی کی شکایت کرتی ہیں۔فرمان ہوتا ہے کہ تم بائیک ٹھیک طرح نہیں چلاتے۔مگر کبھی ان کے ننھے منے ذہن میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ یہاں تو تمہاری غلطی نہیں تھی۔ سامنے والے نے زیادتی کی ہے۔پھر اس کو برا بھلا کہنے لگتی ہیں۔سڑک پر تو حال یہ ہے کہ ہرایک کو جلدی ہے۔لگتا ہے کہ ان سے ایئر پورٹ پہ کھڑا مفت دوبئی لے جانے والا جہاز چھوٹ جائے گا۔ اسی سے یاد آیا کہ اسی سڑک پرمجھے ایک جوان لڑکے نے ہاتھ دیا۔ میں نے بائیک روک کر اس کو لفٹ دینے کے لئے اپنے ساتھ سوار کر لیا۔اس نے کہا میں آگے چوک میں اُتر جاؤں گا۔ چونکہ یہ ایک مصروف سڑک ہے۔سو اس پر چنگ چی بھی تیس روپے لے کر آگے جہاں چاہو اتار دیتی ہیں۔میں نے سوچا بیچارے کی جیب میری طرح خالی ہوگی۔ اس نے یہی ایک ہی جملہ کہا اور میں نے سن لیا۔ کیونکہ روز مجھے اس طرح کے بہت سے لوگ ہاتھ دیتے ہیں۔میں ان کا اسی قسم کا جملہ سنتا ہوں۔جواب میں سر ہلا دیتا ہوں کہ ہاں ٹھیک ہے بیٹھ جاؤ۔ وہ اپنی منزل کے قریب اُتر جاتے ہیں۔ہر چار پانچ دنوں کے بعد ایک بچہ مجھے شام کے بعد کہیں باہر نکلوں تو مل جاتا ہے‘میں اس کو بھی بٹھا لیتا ہوں۔میں اس سے کیا پوچھوں کہ کہا ں اترو گے۔بس جہاں اس کا مقام آئے گا وہاں اتر جائے گا مجھے رکنے کو کہے گا۔لیکن جب ضروری ہو تو میں ہلکا سا انٹر ویو لیتا ہوں۔ اس بچے سے پوچھا تو اس نے بتلایا کہ میرا والد گھرمیں بیمار پڑا ہے۔مجھے ماں نے کہا جاؤ کچھ کماکر لا ؤ۔ وہ جوان لڑکا جس کا ذکر پہلے ہوا گول چوک کے پاس اُترنا چاہتا تھا ا س سے کرنے کو میرے ذہن میں سوالات کلبلانے لگے۔چونکہ میں چوک سے آگے جا رہا تھا۔اس لئے پوچھا تھا کہ اگر آگے جانا چاہتا ہو تو میں اس کو اس کے گھر تک بھی اُتار سکتا ہوں۔ مگر اس نے کہا میں چوک میں اتر جاؤں گا۔ اس سے میرے ذہن میں سوال اُگنے لگا۔ میں نے پوچھا وہاں کیاکرتے ہو۔اس نے کہا بس کام کاج نہیں ہے۔تین مہینے ہو گئے ہیں۔وہاں جا تا ہوں کام کاج تلاش کرتا ہوں۔ پھر مجھے یاد آیا کہ پیچھے اسی سڑک پر نہر کنارے میں نے شہریوں کا ایک بڑا غول بھی دیکھاتھا جو ہاتھ میں چونا اور رنگ و روغن کرنے والے برش لے کر بیٹھے تھے۔جن میں وہ بھی تھے جن کے ہاتھ خالی تھے۔ مگروہ مزدوری کر سکتے تھے۔اینٹیں وغیرہ او رٹاٹکی تو اٹھا سکتے تھے۔وہ بھی تھے جن کے آگے دیواریں تعمیرکرنے کا سامان پڑا ہوا تھا۔یہ گویا معمار تھے مگر بیروزگار تھے۔کیونکہ اب تو دیہاڑی ٹوٹ چکی تھی۔بیروزگاری ہے اور ملک میں بہت ہے اور آج کل تو بہت زیادہ ہے‘مطلب یہ کہ بیروزگاری کا مصنوعی جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ایک کزن ملا تو میں نے پوچھا آج کل کیا کر رہے ہو۔ کہنے لگا رکشہ چلاتا ہوں۔خیر روزگار کمانے میں تو بندہ کوئی بھی کام کرے اور گھرکا کچن چلائے توغنیمت ہے۔مگر تعلیم یافتہ تھا۔اس لئے کسی سرکاری نوکری کی تلاش میں تھا۔کہنے لگا سیٹیں ہیں جن پرٹیسٹ بھی ہوگا اور انٹرویو بھی ہوگا۔ ڈرائیور اور نائب قاصد وغیرہ کی آسامیوں کا ذکر کر رہاتھا۔