رویوں کا جائزہ   (سید ابو یاسر)

 ممتازمفتی اپنی ایک تحریر میں وطن عزیز اور مغرب میں لوگوں کے رویوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”پاکستان کے کسی گاؤں یا قصبے میں چلے جائیے‘ معاًلوگوں کا شوق تحقیق آپ پر مرکوز ہو جائے گا‘ گلیوں اور بازاروں میں چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے شرفا حقہ پینا چھوڑ کر آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے‘چرخہ کاتتی ہوئی عورتیں نظر بھر کر آپکی طرف دیکھیں گی‘بچے دہلیزوں پر کھڑے ہو کر جھانکیں گے۔ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کیوں آیا ہے؟ کس خاندان سے ہے؟ بیوی والا ہے؟ کیسی ہے وہ؟ ایسی ویسی تو نہیں؟اور اگر آپ کو چند دن کیلئے وہاں قیام کرنا پڑے تو لوگ آپکے شجرہئ نسب اور گزشتہ زندگی کے علاوہ عادات واطوار اور چھپے رجحانات سے بھی واقف ہو جائیں گے‘گردن اٹھا کر چلتا ہے ارے بھئی صرف سفید پوشی ہے اور بس‘ خیر ویسے آدمی اچھا ہے۔ ہاں بھلا چنگا ہے“یہ محسوس کرکے کہ آپ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور اس لائق ہیں کہ لوگ آپ کو توجہ اور دلچسپی سے دیکھیں اوربازاروں میں چارپائیوں پر بیٹھ کر آپ کی آمد کا انتظار کریں‘اسکے برعکس کسی مغربی شہر میں جا کر دیکھ لیجئے چاہے آپ سارے کا سارا شہر گھوم پھریں اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے کیلئے سر پر ٹوپی کی جگہ چھاج رکھ لیں اور ٹانگوں پر لہنگے کی جگہ سارنگی کے غلاف چڑھالیں‘آپ دیکھیں گے کہ نہ تو کوئی چارپائی پر بیٹھا آپکا انتظار کر رہا ہو گا‘نہ کوئی عورت آپکو دیکھے گی بلکہ آپ محسوس کریں گے کہ اپنی راہ چلتے اور اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے افراد کے ہجوم کا ایک وسیع ویرانہ پھیلا ہوا ہے اور سڑکوں پر چار پائیوں پر بیٹھے یا دکانوں پر کھڑے ہمدرد محققین کی بجائے موٹریں بھونکتی پھرتی ہیں‘کسی محلہ میں رہ کر دیکھ لیجئے ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعہ پر محلہ والے ازراہ ہمدردی تحقیقات شروع کر دیں گے‘ چرچا ہو گا‘ باتیں چلیں گی‘خیالات کا اظہار ہو گا‘ راہ گیر شوق تحقیق سے بیتاب ہو کر رک جائیں گے اور اپنی رائے سے محلہ والوں کو مستفید کئے بغیر آگے نہ جا سکیں گے‘بوڑھی عورتیں رینگ کر دہلیزوں پر آ بیٹھیں گی۔ غرض کہ تمام محلے کامحلہ جذبہ ہمدردی اور تحقیقات سے چھلکنے لگے گا۔بات صرف اتنی تھی کہ شام کوجو میں بازار سے لوٹا تو سیڑھیوں میں کھلنے والے غسل خانے کی کنڈی باہر سے چڑھا آیا۔ اوپر پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ حفیظ بیٹھا پڑھ رہا ہے‘میں نے ویسے ہی پوچھا‘کیوں میاں پڑھ رہے ہو؟حفیظ پر مغربی رنگ اس قدر غالب تھا کہ وہ مشرقی شوق تحقیق کی عظمت کو قطعی طور پر نہیں سمجھتا‘بولا نہیں شطرنج کھیل رہا ہوں‘ میں نے کہا تم تو پڑھ رہے ہو‘ بولا پھر پوچھنے کا مطلب‘ سیدھی سی بات اسکی سمجھ میں نہیں آتی کہ اگرچہ کتاب سامنے رکھ کر آپ پڑھ بھی سکتے ہیں مگر خواب بھی دیکھ سکتے ہیں کھلی آنکھوں کے باوجود اونگھ بھی سکتے ہیں بلکہ سامنے کتاب کھلی رکھی ہوئی ہو تو اونگھنے اور خواب دیکھنے کا عمل تسلی بخش ہوتا ہے۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ معاشرتی رویوں میں فرق ہے جس کا اندازہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب کسی نے یکسر مختلف معاشروں میں وقت گزارا ہو اور پھر وہاں پر لوگوں کے رویوں کے حوالے سے گہرا مشاہدہ بھی کیا ہو کہ ایک جگہ پر لوگ اگر کسی ایک عادت کو بری عادات میں سے سمجھتا ہو تو دوسری جگہ وہی عادت لوگوں کے عام رویوں میں سرایت کر گئی ہوتی ہے۔ یعنی لوگ اسے برا ہی نہیں سمجھتے۔جیسے اپنے کسی  پڑوسی کے بارے میں معلومات رکھنا ہمارے ہاں عام سی بات ہے تاہم کچھ معاشروں میں اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔