نجکا ری کی تردید 

سر کا ری تر جما ن نے بعض ہو ائی اڈوں کو پبلک پرائیویٹ پا رٹنر شپ میں دینے سے متعلق خبر کی تردید کی ہے‘ تر جمان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی تجویز حکومت کے زیر غور نہیں‘ تردید آنے  کے بعد ایک صاحب نے اس پر گرہ لگا ئی ہے جس خبر کی تردید آئے وہ خبر غلط نہیں ہوتی‘اس پر ایک دوسرے صاحب نے رائے دی کہ نجکا ری کوئی بری بات نہیں‘نجکا ری کے دو بڑے فائدے ہر خاص و عام کو معلوم ہیں‘پہلا فائدہ یہ ہے کہ سر کار کے کندھوں پر سے بو جھ کا بڑا حصہ ہلکا ہو جا تا ہے‘دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جس چیز کو نجی ملکیت میں دیا جا ئے یا نظم و نسق میں نجی شعبے کو شریک کار قرار دیا جا ئے‘اس میں سروس اور خد مات کا معیا ر بلند ہوتا ہے کیونکہ سیٹھ سر کار سے بہتر انتظا می صلاحیت کا ما لک ہو تا ہے‘ ٹیلیفون جب سر کار کے پا س تھا تو نئی لا ئن حا صل کرنے میں دو سال لگ جا تے تھے نجکا ری کے بعد 24گھنٹوں میں کنکشن ملتا ہے‘ آدھ گھنٹے کے اندر خر ابی کی شکایت کا ازالہ ہو تا ہے جن ہسپتالوں کا نظم و نسق نجی شعبے کو دیا گیا تھا ان کا معیار بلند ہوا تا ہم نجکاری کیوں کر ہو؟ کیسی ہو؟ اور کب ہو؟ ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنے اور عوامی سطح سے لیکر ما ہرین کی سطح تک بات کر کے قابل عمل حل تلا ش کرنے کی ضرورت ہے دنیا بھر میں تجارتی ادارے‘کارخانے‘ہسپتال‘ریل‘بجلی‘ گیس وغیرہ قسم کی خد مات والے ادارے سب سیٹھوں‘سا ہو کاروں اور کار وباری کمپنیوں کی ملکیت میں ہو تے ہیں‘اپنا کا روبار چلا تے ہیں عوام کو خد مات فراہم کر تے ہیں‘ سرکار کو اپنی آمدنی پر ٹیکس دیتے ہیں، ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی ملک کی کا میا ب حکومت ہوائی جہا زوں کیلئے‘ سٹیل ملز کے لئے، بجلی کیلئے، گیس اور تیل کیلئے سالا نہ بجٹ سے 100ارب یا 200 ارب کی امداد اور سبسڈی دیتی ہے اور اس کو بیل آؤٹ پیکیج کے نا م سے یا د کر تی ہے، ایسا نہیں ہو تا، کار وبار ی ادارے حکومت سے بیل آوٹ پیکیج نہیں ما نگتے بلکہ ضرورت پڑنے پر حکومت کی مدد کر تے ہیں ہماری حکومت کاروباری اداروں میں اپنے آفیسر وں کو بٹھا تی ہے چند سال پہلے واپڈا کے بڑھتے ہوئے خسارے کو کم کرنے کیلئے بجلی کی تقسیم کا کا م الگ کمپنیوں کو دیا گیا جیسے لیسکو، ٹیسکو‘ پیسکو وغیرہ لیکن ظلم یہ ہوا کہ ان کمپنیوں کا نظم و نسق نجی شعبے کوحوالہ کرنے کے بجا ئے سر کاری آفیسروں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا اور خسارہ جوں کا توں رہا، خد مات کی فراہمی معطل ہی رہی‘ اگر 2000صارفین کا ٹرانسفار مر خراب ہو جائے تو پیسکو حکام کہتے ہیں کہ نیا ٹرانسفار مر لگانے میں 3سال لگیں گے‘ اگر تمہیں بجلی چاہیے تو چند ہ جمع کر و اور خراب ٹرانسفار مر کو بازار میں لے جا کر ڈھا ئی تین لا کھ روپے میں مر مت کراؤ‘ صارفین مجبوراً اپنے خرچ پر ٹرانسفار مر کی مر مت کر واتے ہیں‘ اگر یہ کمپنی کسی سیٹھ کے ہا تھ فروخت کی گئی تو دو دنوں کے اندر نیا ٹرا نسفار مر آجا ئیگا، سٹیل ملز‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور گیس یا تیل کمپنیوں کی سرکاری ملکیت کا بھی ایسا ہی حال ہے اب تک نجکا ری اور پبلک پرائیویٹ پا رٹنر شپ کی راہ میں دو رکا وٹیں ہیں‘پہلی رکا وٹ یہ ہے کہ ہر دور میں حزب اختلاف شور ڈال کر منصو بے کو نا کا م کر تی ہے دوسری رکا وٹ یہ ہے کہ تجار تی کمپنی کو خسارہ میں چلا نے والے ملا زمین ہڑ تال کر کے شور ڈال دیتے ہیں، دونوں کا حل یہ ہے کہ حکومت نجکا ری سے پہلے حزب اختلاف کو اعتما د میں لے لے اور ادارے کے ملا زمین کے لئے نئی کمپنی میں محفوظ کیرئیر یا یکمشت گولڈن ہینڈ شیک کی سہو لت دے کر مطمئن کر ے کیونکہ ملک اور قوم کا مفاد سب سے مقدم ہے نیز لو گوں کو کاروباری اداروں کے ذریعے خد مات کی تیز تر، شفاف تر اور خو ب تر فراہمی ہر صورت میں لا زم ہے سرکاری تحویل میں کوئی بھی ادارہ کا میا بی سے اپنے فرائض انجا م دیتا ہوا نظر نہیں آتا ایک زما نے میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ہو اکرتی تھی اس کو ختم کرنے کے بعد نہ حکومت کو کسی قسم کا مسئلہ ہوا، نہ عوام کو اُس کی ضرورت محسوس ہوئی ہوا ئی اڈوں کو نجی ملکیت میں دینایا آؤٹ سورس کرنا اچھا فیصلہ ہو گا حکومت کو اس فیصلے کی تر دید نہیں کر نی چا ہیے۔