دھند میں لپٹی ہوئی شام

کہرے والی صبحیں تو دیکھی تھیں دھند والے سویرے بھی دیکھ رہے ہیں۔پھر شاموں کے فریب بھی آنکھوں تلے ابھی تک گھوم رہے ہیں مگر اس شہرِ بامراد میں دھواں دھواں شام اس سے پہلے ہم نے دیکھی نہ سنی۔ اب موسم کی عجیب اداؤں پر غور کرنا ہوگا۔بروزِ ہفتہ تو دھند بکل مارے ہوئے شام تھی۔ پھر نہ صرف شام بلکہ صبح سے یہ دھند چھائی ہوئی تھی۔ سارا دن رہی اور شام تک ٹھنڈک نے خیمے ڈالے رکھے تھے۔ دلبر شہر کا پارہ تو صفر تک پہنچا ہوا ہے۔کڑاکے کی سردی ہے۔اس روز تو دن کے وقت بھی سڑکیں اور بازار زیادہ تر سنسان رہے۔دکانیں تو تھیں مگر دن چڑھے تک بند تھیں‘دور رس نگاہیں موسم کی انگڑائیوں کو محسوس کر کے اس ٹھنڈک میں ایک باریک سی ویرانی کو خوب کھلے دل سے دیکھ سکتی تھیں۔ گرم کوٹیوں اورکمبلوں والوں کی ریڑھیاں قطار اندرقطار شہر کے باہر اور پھراندرون شہر گھوم رہی ہیں‘ صاحبان موسم کے تیور درست نہیں ہیں۔گاہے سردی کا احساس اور گاہے دھوپ جم کر لگے تو گرمی محسوس ہو اور تن بدن میں سوئیاں چبھنے لگتی ہیں‘سنا ہے کہ یہ ہم انسانوں کے ہاتھوں کی لگائی آگ ہے جو بارش کے عین درمیان میں بھی کھلے آسمان تلے جل رہی ہے‘ جلا رہی ہے۔ماحول کو آلودہ کرنے کا شاخسانہ ہے‘ماحول کو ویران کردینے کا بہانہ ہے‘دھند کو سموک میں اور دھوئیں کو سموگ بدل ڈالنے کا زمانہ ہے ہم لوگ تو اپنی شہری زندگی گزارنے کے درپے ہیں جیسے بھی گزرے ہم نے تو اپنے حساب سے گزارنا ہے جو آسانیاں ہمیں حاصل ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے یہ آگ جو آلودگی کی ہے اور بھڑکاناہے۔کس کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاتھوں کے بنے بنائے دھوئیں کے مرغولے ہمارے ماحول کو گردن سے تھامے مروڑ رہے ہیں۔ہاں مگر اس میں ہمارے ملک کا اتنا ہاتھ تو نہیں‘ثابت ہوا ہے کہ باہر ملک کے شہریوں نے اس دیوار و در کو اس چاردیواری کی آب و ہوا اور فضا کو خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کے کارن وقت سے پہلے گرمی اور سردی اور ان کے حسابات کی تاریخوں میں رد وبدل اور ایک بے چینی کو کھلے بندوں محسوس کیا جا رہا ہے۔اس دن تو حد ہوگئی تھی۔ایک تو شام کو ویسے بھی اندھیر مچا ہوتا ہے۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا تماشا یہاں تو ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔پھر شام کو آسمان اپنا خود کار اندھیرا اور پھر اس پر یہ شام بھی دھند کے لفافے میں لپٹی ہوئی ہم تک پہنچ رہی تھی۔ کبھی ہلکی بارش کے قطرے آسمان سے برس کر جسم کو خون جما دینے والی اس فضا میں اور بھی یخ بستہ کر دیتے۔گاڑیوں کی لائٹوں نے تو ویسے بھی جلنا تھا کہ شام کا منظر تھا اور پھراس پر دھند نے جو تماشا کیا وہ تو یاد رہ جائے گا‘اگر کہیں درخت ہوں تو ان کا کام ہوا میں موجود دھوئیں کو کھاکر اس کے بدلے میں انسانوں کو سانس لینے کی ہوا اور زیادہ دینا ہے۔اس لئے سبزہ زاروں اور درختوں کے ماحول میں تو ٹھنڈک اور زیادہ ہوتی ہے مگر اب کے تو شہری فضا میں جہاں تنگ و تاریک گلیاں کوچے ہیں وہاں بھی اس شام سردی سے ٹھٹھرنا عام تھا۔ دھند میں لپٹی یہ شام ایک عجیب تاثر دینے لگی تھی۔گاہے سوچنے والے موسم کی اس نئی ادا پر سوچنے پر مجبور تھے‘ مگر رُت یوں اپنے نئے پن میں لپٹ کر پریشاں حال کر رہی تھی تو اس پر بہت کم لوگوں نے غور کیا ہوگا کہ پچھلے برسوں میں ان تاریخوں میں تو ایسا نہیں ہوا کرتا تھا اور اب ایسا کیوں ہونے لگا ہے‘ جس طرف نگاہ اٹھتی‘ لگتاایک سمندر ہے جس کے جزیرے پر ہم سب کی رہائش ہے۔گرد وپیش میں بارشوں اور برف باری کا سن رہے ہیں۔خبروں میں سب کچھ معلوم ہوجاتا ہے۔درجہ حرارت بہت سے مقامات پر صفر سے نیچے جا رہا ہے۔اس بات پرغور نہیں کیا جاتا کہ اب کے ایسا اتنی فراوانی سے کیوں ہو رہا ہے۔