اُداسیوں کا سبب کیاکہیں 

ہم جب چھوٹے ہوتے تھے تو ہمیں اُن مسائل کا بالکل بھی علم نہ تھا جو ہمارے ماں باپ کو ہمارے حوالے سے درپیش ہوں گے۔وجہ یہ ہے کہ بچپن میں عام طور سے بچوں کو کیامعلوم مسئلے مسائل کیاہیں۔پھران کا مقابلہ کس نے کرنا کیسے کرنا ہے۔ہمارا کام تو کھانا پینا کھیلنا کھالنا تھا۔جیسا دوسرے بچوں کا ہے۔ ہمارے والدین کو ہماری جانب سے کیافکر لاحق ہے ہمیں تو دور دور تک پتہ نہ تھا۔مگر جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اور نوجوانی سے نکل کر دنیا کو اپنی سمجھ بوجھ کی نگاہ سے بغور دیکھنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ زندگی کی سمجھ آنا شروع ہوئی۔مگر اب آکر مزید معلومات ہوئیں کہ جو سمجھ آنا شروع ہوئی وہ دھوکا تھا۔ہم سمجھ رکھتے ہوئے بھی غلط سمجھ رہے تھے۔ کیونکہ ہر عمر کی اپنی سمجھ ہوتی ہے۔ہر اماں ابّا اپنے بچوں کی طرف سے فکر مند ہوتے ہیں۔یہ راز تو اب کہیں جا کر معلوم ہوا ہے۔ بچے جب جب بڑے ہوتے ہیں ان کے مسائل بھی ساتھ ساتھ بڑے ہوتے رہتے ہیں۔بچے چھوٹے ہوں تو اس وقت بھی ان کے مسائل کی سمجھ ماں باپ کو خود بھی نہیں ہوتی۔وہ حیلے بہانے کر کے ان کی مستقبل کو روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر جو ہوتا ہے وہ ان کی سمجھ میں پہلے سے موجود نہیں ہوتا۔کیونکہ بچہ لوگ بڑے ہو کر الگ سوچنا شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ ماں باپ کی سوچ کو اپنے زمانے کی نئی سوچ کے ساتھ ملاتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں۔ہمارے بڑے
 خواہ مخواہ پریشان ہو ئے جاتے ہیں۔بات یہ ہے کہ جو مسائل ہمارے ماں باپ نے جھیلے وہ ہم بچوں کو منتقل ہوگئے جب ہم ہوش حواس میں بھرپور طریقے سے آ گئے۔پھراس وقت جو مسائل ہم ماں باپ کو اپنی اولاد کی وجہ سے درپیش ہیں وہ بچوں کے خیال میں بھی نہیں آسکتے۔ ان کو معلوم نہیں والدین ہمارے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ وہی بجلی کے بلوں کا مسئلہ تار والے ٹیلی فون کا بل کیوں زیادہ آگیا اس طرح کے بیشتر اور دیگر قسم کے مسئلے جو اس وقت اپنے گھرکی چار دیواری میں سننے کو آتے تھے وہی موجودہ وقت میں ہماری اولادیں اپنے گھرمیں ہمارے منہ سے سن رہی ہیں۔لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بھاری بھر کم بل اور موبائل میں پیکیج کا نہ ہونا۔جدید دور کے ساتھ جدید گھریلو  بے شمارمسئلے ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔جن کے بارے میں ہمارے تبصرے اس وقت ہماری اولاد کی سماعتوں پر بھی دستک دے رہے ہیں۔مگر وہ اس کھٹ کھٹ پر اپنے کانوں کے دروازے نہیں کھول رہے۔کیونکہ ان کی عمر ایسی نہیں کہ وہ یہ بات سوچ سکیں اور اگر سوچ لیں تو اس کو سمجھ سکیں۔پھر اگر سمجھ لیاتو اس پر عمل بھی کریں۔ کیونکہ عام
 مسئلوں سے نپٹنا تو وسائل کے ساتھ ہوتا ہے۔ان کو اتنے وسائل حاصل نہیں ہوتے جو ایک عمر گزار لینے کے بعد بندہ جب سینئر ہو جاتا ہے تو ماں باپ کو حاصل ہوتے ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ زندگی اگر ہے تو مسائل بھی ہیں۔زندگی ریل گاڑی کی اس پٹری کی طرح ہے جو پشاور سے کراچی تک دو لائنیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اورایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتیں۔یہی مسائل ہر قوم اور ہر ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ”اے شمع تیری عمرِ طبیعی ہے ایک رات۔روکر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے“۔مطلب یہ ہوا کہ اگر شمع کو ان مسائل سے چھٹکارا درکار ہو تو اسے پھونک مار کر اول تو بجھا دیا جائے وگرنہ توجلے گی اور جل جل کر ایک وقت میں خود ہی سارا موم پگھل جانے سے خود بجھ جائے گی۔ وگرنہ اگر اسے روشن رہنا ہے تو اس کو جلنا ہوگا۔یہ جلنا کڑھنا اور اسی میں زندگی کی گزران کرنا تو زندہ رہنے کی نشانی ہے۔اپنی زندگی کے مسائل سے کوئی خوش نہیں ہے۔کسی کو کیا مسئلہ لاحق ہے اورکس کوکیا مسائل درپیش ہیں۔فرازنے کیا عمدہ شعر کہاہے ”اُداسیوں کا سبب کیاکہیں بجز اس کے۔یہ زندگی ہے پریشانیاں توہوتی ہیں“۔ مگر کیا گلہ کرنا ۔یہ تو زندگی کا پرانا دستور ہے جو مشہور ہے جو قریب یا دور ہے رنجور ہے۔زندگی تو اسی سے بھرپور ہے۔کون ہوگا جو اپنی جگہ مکمل خوش خرم ہو ہربندہ کسی نہ کسی الجھن میں ہے۔ مگر گلہ مندی سے بہتر ہے شکر گزاری ہو۔اس لئے کہ جو حاصل ہے وہ بھی نہ چلا جائے۔پھرشکر میں تو اور بھی ملنے کی نوید سنائی گئی ہے۔