یادوں کا اثاثہ  (سید ابو یاسر 

اپنی کتاب ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ میں نصرت نسیم لکھتی ہیں کہ بہت سے پکوان‘ سبزیاں اور روایات معدوم ہو کر رہ گئیں۔ سردیوں کا موسم طویل اور شدید ہوتا‘ بارش کی جھڑی لگ جاتی تو ختم ہونے میں نہ آتی۔ خاص طور پر جمعرات کو شروع ہونے والی بارش کے بارے میں کہا جاتا کہ جمعرات کی جھڑی ہے ہفتہ بھر سے پہلے ختم ہونے کی نہیں اور ان بارشوں میں پھر طرح طرح کے پکوان حلوے‘ پتیسے‘ سری پائے‘ شولہ پکایا جاتا۔ ڈیڈی کے لئے عصر کے وقت پانی گرم کر کے ربڑ کی چھوٹی سی مشک میں بھر کر رکھ دیا جاتا جو وہ اپنے لحافظ میں کبھی کمر کے نیچے کبھی پاؤں گرم کرنے کے لئے پاؤں کے نیچے رکھ لیتے۔ سردیوں میں سکول سے واپسی پر گھر کے سارے لوگ اوپر چھت پر دھوپ سینک رہے ہوتے۔ پتہ نہیں وہ سردیاں بہت شدید تھیں یا دھوپ ہلکی پیلی سی کہ گرمی ہی نہ تھی۔ اس میں دھوپ کے ساتھ ساتھ چارپائی گھسیٹتے رہتے اور کانپتے رہتے۔ 
چار بجے کے قریب پھپھو اماں ایک دستر خوان میں دانے ڈال کر دیتیں کہ بھٹی سے بھنوا کر لے آؤ‘ میں بھاگتی دوڑتی قریبی بھٹی پر پہنچتی اکثر باری آنے کا انتظار کرتی‘ باری آنے پر بھٹی والا دستر خوان کھول کر ایک مٹھی اپنا حق لے کر الگ کرتا اور باقی کے دانے بھوننے کے لئے بھٹی میں ڈال دیتا جو دیکھتے ہی دیکھتے پھول کر اپنی مہک پھیلا دیتے۔ گرما گرم دانے رومال میں باندھ کر گھر کی راہ لیتی جہاں چائے پہلے سے تیار ہوتی‘ اب گرم گرم دانے گڑ کی ڈلی کے ساتھ کھاتے اور چائے کا ایک گھونٹ بھرتے۔ وہ سواد‘ وہ ذائقہ آج بھی زبان پر 
محسوس کرتی ہوں۔ سردیوں کے آغاز میں کابل سے جوق درجوق لوگ وہاں کی شدید سردی سے بچنے کے لئے یہاں آ جاتے‘ انہیں پاوندے کہہ کر پکارا جاتا‘ انہی پاوندوں کا ایک خاندان ہر سال ہمارا مہمان ہوتا‘ گھر کے باہر ایک الگ کمرہ تھا جو انہیں مفت دے دیا جاتا۔ حیرت ہے کہ ایک بہت بڑا کنبہ ایک کمرے میں زندگی گزارتا۔ ان کے لڑکے محنت مزدوری کرتے جبکہ ان کی بیٹی گھر کے برتن دھونے اور دوسرے کاموں میں ہاتھ بٹاتی۔ ریشم نامی یہ لڑکی بہت خوبصورت و سلیقہ شعار تھی۔ گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی یہ لوگ واپس لوٹ جاتے اور ہم سب کئی دن تک ریشم کی کمی کو محسوس کرتے اور اگلی سردیوں کا انتظار کرتے۔ گرمی کا موسم شدید ہوتا‘ گھروں میں زیادہ تر ٹیبل فین اور پیڈسٹل فین ہوتے‘ فریج ابھی نہیں آئے تھے‘ شہر میں ایک دو برف خانے تھے صبح 
صبح جہاں سے برف لے کر آتے اور بوری میں محفوظ کر دیتے۔ برف خانے کا مالک ڈیڈی کا دوست تھا اس لئے ہمارے گھر صبح سویرے برف آ جاتی جبکہ دکانوں پر برف خریدنے کے لئے لوگوں کا ہجوم ہوتا اور اکثر برف کے حصول کے لئے لڑائی جھگڑے اور سرپھٹول معمول تھا۔ اس زمانے میں پینسلین کے ٹیکے لگائے جاتے‘ خراب ہونے سے بچانے کے لئے انہیں برف میں رکھا جاتا لہٰذا اس مقصد کے لئے آئس باکس تھا جس کے اوپر نیچے دو تین خانے بنے ہوتے تھے پہلے خانے میں برف کے ساتھ ٹیکے و دوائیں ہوتیں دوسرے خانے میں شیشے کی بوتلیں‘ آخری تہہ میں قطرہ قطرہ پگھلتی برف کا یخ بستہ پانی اور اس میں انگور اور آم۔ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے اور ان کی یادیں ہی رہ جاتی ہیں‘ بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ان بیتے لمحات کو اثاثہ سمجھ کر محفوظ کیا۔