الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق افواہوں پر پانی پھیرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ حیدرآباد‘ کراچی اور ٹھٹھہ ڈویژنز میں بلدیاتی انتخابات ”15جنوری“ کو ہوں گے اور اِس اعلان سے سندھ کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کو مشکل کا سامنا ہوا ہے۔ بلدیاتی نظام سے گریز میں صرف پیپلزپارٹی ہی مجرم نہیں بلکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھی بلدیاتی انتخابات کو مؤخر کرنے کیلئے کمیشن سے ایک تکنیکی غلطی کو لیکر رجوع کر رکھا ہے جو دو الگ الگ انتخابی فہرستوں کے ممکنہ بیک وقت استعمال سے متعلق ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کی درخواست مسترد کردی ہے جس کے بعد سے سندھ حکومت کو بادل نخواستہ بلدیاتی انتخابات کے تمام انتظامات مکمل کرنا ہوں گے۔ صوبائی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے کہ چیف سیکرٹری اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے سب ایک ساتھ ہوں اور بلدیاتی انتخابات کے محفوظ انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن اور اس کے عملے کو غیر مشروط حمایت و تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہے جس میں انتخابی ڈیوٹی کے لئے کافی تعداد میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہوگی۔ پولنگ سٹیشنز کے علاوہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران‘ ریٹرننگ افسران (آر اوز) کے دفاتر اور یہاں تک کہ پولنگ میٹریل کی نقل و حمل کے لئے بھی فول پروف سیکیورٹی انتظامات کی ضرورت ہوگی چونکہ پولنگ میٹریل کو ریٹرننگ سٹیشنز کے دفاتر سے پولنگ سٹیشنز اور واپس منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس لئے کراچی جیسے شہر میں سیکورٹی ٹیموں کے لئے یہ ایک چیلنج ہے۔ آئین کے ”آرٹیکل 22“ کے تحت حکومت کو الیکشن کمیشن کو تمام ضروری معاونت فراہم کرنے کی ضرورت
ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کے لوگ ایک فعال بلدیاتی نظام کے لئے ترس رہے ہیں جو میونسپل خدمات کو ہموار طریقے سے چلانے کے لئے بہت اہم ہے۔ اس مشق کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے تمام تیاری اور تنظیمی میکانزم ایک ہفتے کے اندر اندر ہونا ضروری ہے۔ اصولاً پرامن طریقے سے انتخابات کے انعقاد میں کسی بھی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ سندھ میں مقامی حکومتوں کی مدت اگست 2020ء میں ختم ہوئے تقریبا ڈھائی سال گزر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کی میعاد ختم ہونے کے بعد چار ماہ کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد کریں۔ سندھ میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد گزشتہ سال جون میں کیا گیا تھا لیکن دوسرا مرحلہ کراچی اور حیدرآباد میں منعقد کیا جانا تھا جس میں کئی بار تاخیر ہو چکی ہے اگرچہ ابتدائی تاخیر سیلاب کی وجہ سے ہوئی لیکن سندھ حکومت اس کے بعد بھی بلدیاتی انتخابات سے کنارہ کش رہنے کی کوشش کرتی رہی تاکہ یہ اہم جمہوری عمل غیر معینہ مدت تک مؤخر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی زیرقیادت سندھ انتظامیہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانے میں اکیلی نہیں بلکہ تحریک انصاف اور نواز لیگ بالترتیب پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے جیسا کہ چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ ”سندھ میں انتخابات میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔“ سندھ میں منتخب بلدیاتی اداروں کو مدت اگست دوہزاربیس میں ختم ہوئی تھی۔ قانون کے تحت یہ میعاد ختم ہونے کے ایک سو بیس دن کے اندر انتخابات ہونے چاہئے تھے جبکہ سندھ تقریبا ڈھائی سال سے منتخب بلدیاتی اداروں سے محروم ہے‘ منتخب بلدیاتی نمائندے نہ ہونے کے نتائج پورے سندھ بالخصوص کراچی میں واضح ہیں۔ بہتے ہوئے سیوریج‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ٹوٹا پھوٹا انفراسٹرکچر اس کی عکاسی کرتا ہے۔