اس گاڑی میں کوئی مریض تھا۔ اس کو راستہ نہیں مل رہا تھا۔ گھنے گھنیرے بازار میں ٹریفک کے آزار میں یہ ایمبولینس چیختی چلاتی گاڑیوں کے بیچوں بیچ راستہ لینے کی کوشش میں تھی۔ لگتا بہت دور کہیں سے آرہی ہے۔ ہمارے ہاں کی بے حسی کچھ اسی طرح کی ہے۔ راستہ نہیں دیتے۔میں اسی سڑک پر رواں دواں تھا۔ میں تو ایک طرف ہو گیا کہ ایمبولینس کے راستے میں اگر میں خود رکاوٹ ہوں تو یہ بندش دور ہو جائے۔ مگر مجال ہے کہ اور کسی کو پروا ہو۔اپنا مزے سے ٹریفک اسی رفتار سے سیدھی سمت میں روانہ تھی۔ کسی گاڑی کو نہ دیکھا کہ وہ ایک طرف ہوکر اس سرخ بتی کے جلتے بجھتے منظر میں ایمبولینس کو راستہ دے۔ حالانکہ جب ایمبولینس سائرن بجاتی آ رہی ہوتو سامنے سے گاڑیوں کو ہٹ جانا چاہئے تاکہ ایمرجنسی کی حالت میں اس گاڑی کو راستہ صاف مل سکے۔مگر یہاں کون کسی کی پروا کرتا ہے۔ جب اپنا مریض ہو تو اس وقت اس صورتِ حال کی نزاکت کا پتا چلتا ہے۔ان کڑوے کسیلے اور کٹھن لمحات کا ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔لواحقین کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد ہم ایمرجنسی وارڈ تک پہنچ جائیں۔ مگر کون بے حس لوگوں کوآمادہ کرے۔ پھر جہاں شہر میں صحت مند لوگ زندہ پائندہ گھوم رہے ہیں وہاں ایمبولینس میں کوئی
مریض بھی تو ہو سکتا ہے۔جب ایمبولینس کا رخ ہسپتال کی طرف نہ ہو اور وہ الٹی سمت کو خالی جا رہی ہو ایسے ڈرائیور کو جلدی ہو۔ سائرن بج رہا ہو تو بعض شہری اس پرشکایت کرتے ہیں یہ ڈرائیور اس رش میں اپنا راستہ سیدھا کر رہا ہے۔گاڑی میں مریض ہے نہیں اور یہ خواہ مخواہ سائرن بجاتا لوگوں کو پریشان کر کے جا رہاہے۔حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔اس کو کہیں سے فون ہوا ہوتا کہ ہمارا مریض ہے اس کو جلدی ہسپتال پہنچانا ہے۔ وہ ڈرائیورجہاں سے فون آیااسی سمت میں ہسپتال کی راہ کے مخالف گاڑی کو بھگا تا ہے۔جس ایمبولینس کا میں نے ذکر چھیڑا وہ ہم سے کراس کر کے آگے نکل گئی۔مگر تھوڑی دور جا کر ہسپتال سے پہلے ہی ایک طرف رُک گئی۔ ڈرائیور نیچے اترا اور پیچھے آکر مریض کے لواحقین سے کوئی بات کی۔معلوم ہوا کہ اندر مریض دم توڑ چکا تھا۔اسلئے اس کو اب ہسپتال
کے ایمر جنسی کی طرف بھگا کر لے جانا بیکار ہو چکا تھا۔ سو اس ایمبولینس نے سڑک پر سے یوٹرن کیا اور اس سمت کو واپس روانہ ہوگئی جس گھر سے آئی تھی۔بہت دکھ پہنچا۔اس لئے کہ ہم لوگ بے حسی میں اتنے مبتلا ہیں کہ کسی بات کا ہمیں احساس ہی نہیں۔ اصل میں ہمارا کلچر ہی نہیں ہے کہ ہم اول تو ہم کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کو محسوس تو کریں۔ پھر اس پر عمل درآمد تو بعد کی بات ہے۔ مہذب قومیں تو ایسا نہیں کرتیں۔ پھر اگر وہاں رش نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں سرے ہی سے بھیڑ بھاڑ کا عالم نہیں۔وہاں ہر چیز ایک اصول اور ضابطے کے ساتھ ہے۔۔اس کلچر کو ہمارے ہاں آگے بڑھانا چاہئے۔جہاں آپ ہر مسئلے پر عوام کے لئے آگاہی کی مہم چلاتے ہیں۔ پوسٹر اور بینر شائع ہوتے ہیں۔ذرا اس چیز کو بھی تو ہائی لائٹ کریں کہ ایمبولینس کا معاشرے میں ایک مقام ہے جس کے وجود کو تسلیم کرنا چاہئے۔ایمبولینس یونہی تو ایجاد نہیں ہوئی آخر اس کا کوئی مقصد ہے کیونکہ ہزاروں سالوں سے اور آئندہ بھی انسانیت بیماریوں کے ہاتھوں سسکتی رہے گی۔کیونکہ ایسا تو ہوا ہے اور ہو رہا ہے پھر اسی طرح ہوگا۔ کیونکہ انسان
کی صحت اور حالت اچانک بگڑ جانے میں لمحہ بھر بھی دیر نہیں ہوتی۔جب ہر آدمی کے ساتھ ایمرجنسی ہو سکتی ہے تو وہ جو ایمبولنس کو راستہ نہیں دیتے ان کو اس موقع پر اپنا آپ سامنے رکھنا چاہئے۔ پھر ان کو خود بخود ایمبولینس کو رعایت دینے کا احساس ہوگا بلکہ اگرآپ کسی دوسرے شہر میں فون کریں اور وہ فرد اگر بازار میں کھڑاہو تو فون پر اس کی ابھرنے والی آوازکے ساتھ پس منظر میں کبھی ایمبولینس کے سائرن کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہوتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی ہنگامی حالت کسی پر بھی جو انسان ہے طاری ہو سکتی ہے۔حساس لوگ ضرور ایمبولنس کو سرِ بازار چیختا چلاتا ہوا دیکھتے ہوں گے۔ان کے دل پر بھی بھاری ریل گاڑی سی گزر جاتی ہو گی۔ سوچتے ہوں گے خدا کرے اس مریض کو شفا مل جائے۔ جانے کون کس بیماری کے تحت اندر لیٹا ہے۔کیونکہ انسان تو انسان ہے خواہ وہ زمین سے اٹھ کر مریخ پر چلا جائے مگر چونکہ اپنا جسم ساتھ لے جائے گا لہٰذا وہ بیماری کے حوالے سے قابلِ رحم بن جاتا ہے۔جو صحت مند ہیں اور بیچ بازار سب تماشا دیکھتے ہیں ان کو اپنی صحت پررشک کرنا چاہئے اور شکر کرناچاہئے کہ وہ بطورِ مریض اس ایمبولینس میں موجود نہیں ہیں۔ مگر اس شکر کا صدقہ اتارنا یوں بھی ہو سکتا ہے کہ ہم ایمبولینس کو راستہ ہی دے دیں۔