تفکرات سے نجات  (سید ابو یاسر)

پروفیسر ڈاکٹر محمدحفیظ اللہ اپنی کتاب”قلب منیب“ میں لکھتے ہیں کہخوف کے اثرات اور جذبات جب انسان  پر غالب آجائیں تو اسے نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی طورپر بھی تباہ کر دیتے ہیں‘جن خواہشات اور جذبات کا اظہار نہ ہو سکے وہ انسان کے اندر پلتے اور پھولتے رہتے ہیں اور انسان کی توانائی کو کھا جاتے ہیں یہ انسان کی خودداری اور خود اعتمادی کو ناقابل تلافی نقصان  پہنچاتے ہیں کچھ مسائل اتنے پیچیدہ نہیں ہوتے جتنے نظر آتے ہیں اور کچھ مسائل کا حل بظاہر آسان نظر آتا ہے مگر ان کا حل نہیں نکل پاتا اور یہ صورتحال انسان کو ذہنی طور پر پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے کچھ لوگ اپنے ذہن میں بے بنیاد خدشات پال کر انہیں مینار کی صورت میں کھڑا کر دیتے ہیں جس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے نہ ہی اسے گرانا ممکن ہوتا ہے خدشات اور تفکرات کی یہ ہلچل انسان کی توانائی اور سوچنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے اور ذہنی سکون چھین لیتی ہے جس کی وجہ سے انسان کسی بھی کام پر توجہ نہیں دے پاتا۔ ہر انسان کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت الگ ہوتی ہے ہر حساس انسان کے اندر ایک ٹریش بک یا ری سائیکل بن ہوتا ہے جس میں وہ اپنی نامکمل توقعات‘ خدشات اور ناکامیوں کو ڈال کر ایک نئے جذبے سے زندگی کا آغاز کرتا ہے بچپن اور لڑکپن میں ماں ہی اپنے بچوں کی تمام امیدوں اور توقعات کا مرکز ہوتی ہے بچوں کو یقین ہوتا ہے کہ جس نے ان کو جنم دیا اس کے پاس بچوں کے تمام مسائل کا حل موجود ہے مامتا کا پیار جب بچوں کو ملتا ہے تو ان میں یہ امید بھی پیدا ہوتی ہے کہ انہیں  جو بھی مسئلہ پیدا ہوگا اس کا حل ماں کے پاس ضرور ہوگا وہ جس مشکل سے بھی دوچار ہونگے ماں انہیں مشکل سے بچا لے گی ان کی بھوک مٹانے‘ نیپی تبدیل کرنے سمیت تمام چھوٹے بڑے مسائل کا حل ماں کے پاس موجود ہوتا ہے بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کی خواہشات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے لیکن امیدوں کا محور ماں ہی رہتی ہے جب انسان کی عمر مزید بڑھتی ہے‘ وہ ہوش سنبھالتا ہے اور ماں پہلے سے نحیف اور کمزور پڑ جاتی ہے تب بھی بچہ اپنی ماں کو ہی مسائل سے نجات دلانے والی سمجھتا ہے اس عمر میں بھی وہ بچوں کو مشکلات سے بچنے اور مسائل حل کرنے کا گر سکھاتی ہے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کے اظہار سے ہی دل کا غبار ہلکا ہو جاتا ہے کچھ مسائل نصیحت پر عمل کرنے سے حل ہوتے ہیں اور کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے حل کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے ان کا حل نکل آتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی پریشانیوں کو معموملات زندگی میں تھوڑی سی تبدیلی لاکر کچھ دیر کیلئے بھلا دیتے ہیں کھیلوں کی سرگرمیوں اور ورزش سے اپنی توجہ مسائل سے ہٹا دیتے ہیں ان پریشانیوں کو فٹ بال‘ کرکٹ اور دیگر صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رہ کر بھلا دیا جاتا ہے۔“ پروفیسر حفیظ اللہ کی کتاب سے اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ خوف کے اثرات اور جذبات پر قابو پانے کی ضرورت اور اہمیت ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور ایک وقت آجاتا ہے کہ یہ انسان کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرجاتا ہے۔ خوف کے اثرات کو زائل کرکے ہی زندگی میں کامیابی اور کامرانی کا راستہ نظر آنے لگتا ہے بصورت دیگر انسان خوف کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے۔