پہلی خبر: معاشی دیوالیہ ہونے کے بعد سری لنکا نے ”سرکاری اخراجات“ میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ٹیکسوں میں بھاری اضافے کے باوجود اس کے پاس عوامی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لئے بمشکل ہی رقم موجود ہے۔ جزیرے پر مشتمل سری لنکا 46 ارب ڈالر کے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے دیوالیہ ہو چکا ہے اور گزشتہ سال ایک غیر معمولی اقتصادی بحران کے بعد سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت کر رہا ہے تاکہ ”بیل آؤٹ“ (مزید قرض) حاصل کر سکے۔ سری لنکن صدر رانیل وکرما سنگھے نے رواں ہفتے ریاستی اخراجات میں پانچ فیصد کمی کا حکم دیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ خط غربت و افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے اٹھارہ لاکھ خاندانوں کو دی جانے والی فلاحی ادائیگیوں میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ سری لنکن کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ سال 2022ء میں دیوالیہ ہونے سے زیادہ بڑا معاشی بحران رواں برس 2023ء میں متوقع ہے جو کہیں گنا زیادہ بدتر ہوگا کیونکہ سری لنکا کی پیداوار اور معیشت توقع سے زیادہ تیزی سے سکڑ رہی ہے جبکہ محصولات (ٹیکسوں) سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی کم ہو رہی ہے۔ دوسری خبر: وزیر اعظم شہباز شریف نے جنیوا میں بین الاقوامی کانفرنس کو کامیاب بنانے پر تمام سربراہان مملکت اور حکومتوں‘ یورپی یونین‘ اقوام متحدہ اور پاکستان کے دیگر ترقیاتی شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا ہے جبکہ ماضی کے تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کئی ملکی و غیر ملکی تجزیہ کاروں نے مذکورہ کانفرنس (اجلاس) میں کئے گئے امداد کے وعدوں کی ستائش کرتے ہوئے اِس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو سری لنکا جیسے دیوالیہ سے بچنے کے لئے اپنے حکومتی اخراجات میں پچاس فیصد جیسی کمی لانا ہوگی۔ ذہن نشین رہے کہ کثیر الجہتی اور دوطرفہ عطیات دہندگان نے پاکستان میں سیلاب سے بچاؤ کی کوششوں کے لئے مجموعی طور پر 10.7 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ جو سیلاب سے متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے پاکستان کے تخمینہ جاتی ہدف (8 ارب ڈالر) کی اپیل سے کہیں زیادہ ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کا وعدہ خوش آئند ہے اِسی طرح عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے سات ارب ڈالر کے پروگرام کے نویں جائزے کے ساتھ سعودی عرب کے سرمایہ کاری منصوبوں کے مثبت نتائج متوقع ہیں اور یہ سب وعدے اور امیدیں ایک ایسے ملک کے لئے اچھی خبریں ثابت ہو سکتی ہیں جو ”معاشی بحران“ کے کنارے پر کھڑا ہے!
کسی بھی اچھی بات کے منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ توجہ طلب ہے کہ مشکل میں پھنسے ملک و معیشت کو خارجی سے زیادہ داخلی سہارے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر حسب وعدہ امداد اور مزید قرض مل بھی گیا جس سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ چھ ماہ یا اُس سے چند ہفتے زائد تک ٹل جائے گا لیکن اِس کے بعد کیا ہوگا؟ پاکستان کی معاشی صورتحال جس مقام تک آ پہنچی ہے اُس میں چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلانے ہی میں دانشمندی ہے۔ جہاں تک بات امداد کے عالمی وعدوں کی ہے تو اُن کی تفصیلات فی الحال واضح نہیں ہیں۔ کیا مذکورہ اعلان کردہ رقم 100 فیصد امداد ہوگی یا اِس کا کچھ حصہ امداد اور باقی قرض ہوگا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے یا پھر مذکورہ امداد کے اعلانات سوفیصدی قرض ہوں گے؟ اِس بارے میں فی الوقت زیادہ تفصیلات میسر نہیں اور شاید اِس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز نہ تو خود اور نہ ہی قوم کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتے البتہ معاشی بحران ایک ایسا گڑھا ہے جس میں اب سوائے بچت گرنے سے بچنا ممکن نہیں رہا۔ اقتصادی اور کاروباری تجزیہ کاروں نے پہلے ہی متنبہ کر رکھا ہے کہ امداد اور قرض ملنا عارضی ریلیف ہے کیونکہ چھ ماہ کے اندر ملک کو ایک بار پھر آمدن و اخراجات میں عدم توازن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔