پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے اسلام آباد میں سہ فریقی ورکنگ گروپ کے اجلاس کے دوران ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی کے آغاز پر تبادلہ خیال کیاہے۔مجوزہ منصوبے کا مقصدافغانستان کے شمال سرحدی شہر مزار شریف پر موجودہ ریلوے لنک کو پاکستان ریلوے نیٹ ورک سے جوڑ کر پاکستان کو وسطی ایشیائی جمہوریہ ازبکستان سے ملاناہے۔ اس منصوبے کے تحت مزار شریف سے طور خم تک 783 کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا، مزار شریف سے طورخم تک ٹریک کی لاگت 8 ارب ڈالر سے زائد ہوگی، ٹریک پر 148 کلومیٹر کی 80 ٹنل تعمیر کی جائیں گی، ٹنل پرمشتمل ٹریک پر 40لاکھ ڈالر فی کلو میٹر خرچ آئے گا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مزار شریف سے طور خم تک ٹریک مکمل طور پر الیکٹرک ہوگا۔ یاد رہے کہ تینوں ممالک نے پہلے ہی 573 کلومیٹر طویل ٹرانس افغان ریلوے کی تعمیر کیلئے ایک روڈ میپ سٹریٹجک منصوبے پر دستخط کیے ہیں جو وسطی ایشیا کو بحیرہ عرب کی بندرگاہوں سے جوڑے گا۔معاہدے میں روٹ اور اس کے علاقے کا سروے کرنے کے لئے مشترکہ مہم چلانے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے لیے ابتدائی فزیبلٹی سٹڈی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔یہ لائن شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف سے کابل کے راستے پشاور تک چلے گی اور موجودہ ترمز، ازبکستان،مزار شریف کراس بارڈر لائن سے جڑے گی جو 2012 میں کھولی گئی تھی۔ اسی طرح یہ لائن مسافروں اور مال برداری کے دونوں خدمات فراہم کرے گی اور توقع ہے کہ اس سے جہاں پر لینڈ لاک افغانستان اور ازبکستان کی معیشت پر اچھے اثرات پڑیں گے وہاں اس سے اس سارے ریجن میں کاروباری اور دوطرفہ روابط میں بھی بہتری آئے گی۔ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب ازبکستان اپنے سپلائی راستوں کو متنوع بنانے اور یورو ایشیائی تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لئے پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی کے لئے پرتول رہا ہے۔ روس اور یوکرین کے طویل تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی تبدیلی اور عدم استحکام نے سپلائی کے راستوں کوبھی متاثرکیاہے خاص طور پر ازبکستان جیسے لینڈ لاک ملک کے لیئے یہ صورتحال اور بھی پریشان کن ہے کیونکہ ماضی میں وسط ایشیاء کی دیگر ریاستوں کی طرح ازبکستان کابھی اپنی بیرونی تجارت کیلئے ذیادہ ترانحصار روس پررہاہے۔ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ جو پہلی بار دسمبر 2018 میں ازبکستان کی طرف سے تجویز کیا گیا تھا، اس کا مقصد افغان ریل نیٹ ورک کو مزار شریف سے کابل اور پھر جنوب مشرقی صوبہ ننگرہار تک پھیلانا ہے جہاں سے یہ ریلوے ٹریک طورخم سرحد عبور کر کے پشاور کے راستے کراچی تک جائے گی۔اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ دشوار گزار پہاڑی سلسلوں اور شدیدموسمی اثرات کوبھی قراردیاجارہا ہے مثلاً ریلوے لائن کا ایک حصہ 3500 میٹر کی بلندی پر ہندوکش کے پہاڑی علاقے میں سالنگ پاس سے گزرنے کا منصوبہ ہے۔ درہ سالنگ سردیوں کے موسم میں شدید برف باری کا شکار رہتاہے جو طویل مدت کے لئے اس ریلوے ٹریک کو غیر فعال کر سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغان فریق نے سالنگ پاس کی پیچیدگیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے بغلان اور بامیان کے راستے متبادل روٹ کی منظوری بھی دی ہے لیکن اس سے سفر کی مسافت اوروقت میں اضافے کے خدشات کونظر اندازنہیں کیاجاسکتا ہے۔ اس منصوبے میں ایک اورچیلنج گیج کا مسئلہ ہے۔ افغانستان میں ریلوے لائن کو روسی براڈ 1520ملی میٹر گیج کے ساتھ بنایا جائے گا تاکہ یہ ازبکستان سے آنے والی ریلوے لائن سے باآسانی منسلک ہو سکے کیونکہ ازبکستان میں یہی براڈ گیج استعمال کیاجاتا ہے تاہم پاکستان میں چونکہ 1676 ملی میٹر گیج کی ریلوے لائن استعمال ہوتی ہے اس لئے پاک افغان سرحد پر1520 ملی میٹر سے 1676 ملی میٹر گیج کی ریل ٹریک پرمنتقلی کی ضرورت ہوگی لہٰذا اس منصوبے کے تینوں فریقین ازبکستان‘ افغانستان اور پاکستان کو مل کر نہ صرف ان زیر بحث مسائل سے نمٹنا چاہئے بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اس تاریخی منصوبے کی تکمیل اور کامیابی کے لئے چین اور روس جیسے اہم علاقائی ممالک کے تعاون کے حصول پر بھی توجہ دینی چاہئے۔