کمپیوٹر سافٹ ویئر بنانے والی امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ نے ایسا سافٹ ویئر تیار کرلیا ہے جو صرف 3 سیکنڈ میں کسی کی بھی آواز کی ہوبہو نقل کرسکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق مائیکرو سافٹ کا تیار کردہ یہ وائس سمولیٹر سافٹ ویئر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے صرف 3 سیکنڈ میں کسی بھی شخص کی آواز سن کر اس کی ہوبہو نقل کر سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وی اے ایل ایل ای لینگویج ماڈل کو بنانے کے لیے 7 ہزار افراد کی انگریزی میں 60 ہزار گھنٹوں تقاریر استعمال کی گئیں تاکہ کسی بھی ان دیکھے شخص کی ’اعلیٰ معیار کی تقریر‘ کی ہو بہو نقل تیار کی جا سکے۔
اس سافٹ ویئر کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف سنی ہوئی بات کی نقل نہیں کرتا بلکہ اس سسٹم میں کسی بھی شخص کی صرف ایک بار کی وائس ریکارڈنگ آ جائے تو یہ اس شخص کی آواز میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے حتیٰ کہ جذباتی اتار چڑھاؤ، لفظوں کے زیر وبم اور صوتی ماحول کو بھی پوری طرح کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس سے قبل مائیکرو سافٹ مشہور مصوروں کی پینٹنگ کی نقل کرنے والا ایک اور پروگرام ڈیل ای بنا چکا ہے تاہم نیا ماڈل ٹیکسٹ ٹو اسپیچ ہے یعنی لکھے الفاظ کو آواز میں بدلتا ہے۔ یہ دنیا میں کسی بھی شخص کی آواز کی نقل کرسکتا ہے جس کے لیے اسے تین سیکنڈ کی آڈیو فائل درکار ہوگی۔ تاہم مزید بہتری کے لیے قدرے طویل آڈیو فائل کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
اس طرح آپ وال ای سے کسی بھی شخصیت سے وہ الفاظ ادا کروا سکتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہے۔ یعنی ویڈیوز میں کسی شخص کی بصری مماثلت کی نقل کرنے والی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی طرح اس کے بھی غلط استعمال کا امکان موجود ہے۔ ماہرین نے اس سے جعلی آڈیوز اور فیک ریکارڈنگ کا ایک نیا سیلاب آنے اور طرح طرح کے مسائل جنم لینے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
تاہم مائیکرو سافٹ نےکہا ہے کہ اس کے کچھ فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ اگر کوئی فنکار فلم کی ڈبنگ درمیان میں چھوڑ کر کہیں اور مصروف ہوجاتا ہے تو اس کی ڈبنگ سافٹ ویئر سے کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کے دیگر چھوٹے امور وال ای اے آئی اچھی طرح نبھا سکتا ہے۔
مائیکرو سافٹ نے ماڈل کے غلط استعمال کی صورت میں ممکنہ خطرات، جیسا کہ آواز کی جعل سازی یا کسی بولنے والے کی نقل بنانا سمیت دیگر خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’نقلی آواز بنانے کے لیے استعمال ہونے والا وی اے ایل ای سافٹ ویئر فی الحال عوامی استعمال کے لیے دستیاب نہیں۔‘
مائیکروسافٹ نے کہا کہ وہ وی اے ایل ایل ای میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ اپنے مصنوعی ذہانت کے اصولوں پر بھی عمل کرے گی۔ نیز اس طرح کے خطرات کو کم کرنے کے لیے سنتھیسس آواز کا پتہ لگانے کے ممکنہ طریقوں پر بھی غور کیا جائے گا۔