پروفیسر ڈاکٹر حفیظ اللہ اپنی کتاب ”قلب منیب میں لکھتے ہیں کہ اپنے جواں سال بیٹے کی وفات پر صبر و تحمل کا پیکر والد کہہ رہاتھا”کہ اے ربّ آپ نے ہم پر بڑا کرم کیا تھا‘ ایک ایسا بیٹا مجھے عطا کیا جو اپنی مثال آپ تھا وہ ایک فرمانبردار بیٹا ایک پیار کرنے والا بھائی‘ شفقت سے بھرا ایک باپ‘ایک مخلص شوہر‘ ایک باکردار عالم‘ ایک منکسرالمزاج انسان اور ایک سچا مسلمان تھا بے شک وہ ہمارے پاس آپ کی امانت تھا اگر ہم آپ کی توقع پر پورا نہ اتر سکے ہوں تو ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم کر“ غمزدہ باپ کے یہ الفاظ سن کر وہاں موجود ہر شخص اشکبار ہوگیا یہ ایسا منظر تھا جو میری آنکھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور میرے ذہن نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا تھا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بہہ رہے ہوں لیکن وہاں ساری آنکھیں خشک تھیں اور تمام لوگ صبر و استقامت کے پیکر بنے ہوئے تھے یہ ایسا موقع ہونا ہے کہ کچھ لوگ اپنے اوپر اختیار کھو دیتے ہیں مگر وہاں موجود ایک غمزہ باپ ہاتھ اٹھائے بھرپور عالم شباب میں وفات پانے والے اپنے بیٹے کیلئے ربّ کے حضور دعا کر رہا تھا‘ تیس سالہ نوجوان جو چار سال کی بیٹی کا باپ تھا اور کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں حال ہی میں ملازمت اختیار کی تھی سڑک کے ایک المناک حادثے میں شدید زخمی ہوا تھا کچھ لوگ انہیں اٹھا کر ٹول پلازہ لے آئے وہاں سے موٹر وے پولیس نے اسے ہسپتال پہنچا دیا پانچ دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعدبالآخر انہوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی جب یہ حادثہ پیش آیا ان کے والد عمرہ ادا کرنے گئے تھے وہاں سے امریکہ جانے کا پروگرام تھا جونہی وہ جہاز سے اترا اسے حادثے کی اطلاع مل گئی اور پاکستان آنے والی اگلی پرواز کا ٹکٹ لے لیا دن رات کے گزرنے کا اسے پتا بھی نہ چل سکا اور وہ دن بعد وطن واپس پہنچ گیا ان کا جگرگوشہ موت سے لڑ رہا تھا سفر کے دوران اگر اس قسم کے غم اور پریشانی میں مبتلا ہونا پڑے تو انسان پریشانی کے عالم میں ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے بیٹا موت سے لڑتے لڑتے بالآخر موت کی وادی میں اتر گیا اور باپ نے امر الٰہی کو قبول کرلیا‘ غمزدہ باپ کا حوصلہ ناقابل یقین تھا اس نے خود کو قابو میں رکھا تھا جو حیران کن تھا اور اس کا صبر دیکھ کر رشک آتا تھا میں نے اسے دھیمے لہجے میں یہ کہتے سنا کہ ”میں یہاں موجود تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ پہلا کلمہ ستر ہزا ر مرتبہ دہرائیں تاکہ میرے بیٹے کا سفر آخرت آسان ہو جائے‘ جواں سال بیٹے کی لاش کے پاس بیٹھے باپ کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں مگر وہ شخص صبر و تحمل اور استقامت کی تصویر بنا ہوا تھا‘ عقیدے کی مضبوطی ہی سچے مسلمان کو عام لوگوں سے ممتاز بناتی ہے عقیدہ کسی معاہدے یا قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کا نام نہیں یہ خداکی رضا کو بلاچوں و چرا تسلیم کرنے اور رب کو مقتدر اعلیٰ قبول کرنے کا نام ہے یہ خصوصیت اپنے اندر پیدا کرنے کیلئے خصوصی محنت کرنا پڑتی ہے۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ صبر و استقامت ہے جس کا حصول کوئی آسان کام نہیں، صبر جس قدر مشکل ہے اس حصول اور سیکھنے کیلئے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تب ہی جاکر کوئی مشکل وقت میں صبر کا دامن تھامے رکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔اور پھر ایک مسلمان کا عقیدہ ہی یہی ہے کہ زندگی میں مشکلات مصائب آزمائش ہے جس پر اگر وہ پورا اترا تو رضائے خداوندی کی صورت میں اسے بے انتہا انعامات کی نوید سنائی گئی ہے۔