تعلیم و مقصدیت

قضیہ شعبہئ تعلیم کے نصاب‘ انتخاب‘ فیصلے اور اِس سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال کا ہے۔ ملک میں درجنوں قسم کے تدریسی نظام اور نصاب تعلیم رائج ہیں تو جہاں تعلیم ایک جیسی نہیں وہاں تعلیمی قابلیت کا معیار  کیسے ایک جیسا ہو سکتا ہے؟ پاکستان میں اہلیت و ذہانت کی قطعی کوئی کمی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں بالخصوص اُن تعلیمی اداروں کے طلبہ جن کے امتحانات بیرون ملک کے امتحانی بورڈز لیتے ہیں‘ میں پاکستانی طلبہ نمایاں (بہترین) کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں لیکن اصل مسئلہ اُس اکثریت کا ہے جو سرکاری اور عمومی درجے کے نجی سکولوں میں زیرتعلیم ہے اور ایسے طلبہ کے لئے انگریزی زبان کو بطور مضمون ”لازمی“ قرار دینا قرین از انصاف نہیں۔ ایسے طلبہ کی تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے جو کسی نہ کسی امتحانی مرحلے میں ’انگریزی‘ کا مضمون ’پاس  نہیں کرتے لیکن اُنہیں تدریسی عمل میں بتدریج آگے بڑھنے کے لئے بہرصورت انگریزی  پر کچھ نہ کچھ عبور حاصل کرنا ہوتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں پرائمری سطح تک تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی اکثریت انگریزی یا اُردو میں ایک سادہ سا جملہ پڑھ یا لکھ نہیں سکتی یا ریاضی کے بنیادی اصولوں کا اطلاق کر کے حساب کتاب کرنے کے قابل نہیں جس کی توقع آٹھ یا نو سال کے طالب علم سے کی جا سکتی ہے! اس طرح ہم اپنے طلبہ کو ابتدا سے انتہا تک بذریعہ تعلیم بااختیار بنانے کی بجائے غیرمعیاری تعلیم فراہم کرکے ناکام اور کسی درجے مایوس (دل برداشتہ) بنا رہے ہیں‘ اُن کی شخصیت میں مضامین نہ سمجھ پانے کی وجہ سے احساس کمتری اور ایک قسم کی معذوری پیدا ہو رہی ہے جس کا اگرچہ وہ ذکر نہیں کرتے لیکن یہ اُن میں پائی جانے والی ’خوداعتمادی‘ کو بہرحال متاثر کرتی ہے۔تعلیم کا مقصد کسی بھی صورت ”دباؤ“ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ دباؤ سکول بیگ کے وزن سے لیکر نصاب ِتعلیم کے لئے منتخب اسباق کی صورت وسیع تناظر اور وسیع معنی (کثیر جہتیں) رکھتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں طلبہ کو اسباق زبانی یاد نہیں کروائے جاتے اور نہ ہی اُنہیں ٹیوشن سنٹرز‘ کوچنگ اکیڈمیز بھیجا جاتا ہے۔ دنیا میں اسباق کے ”رٹے“ والی تعلیم کا کوئی مستقبل نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تعلیم کو تنقیدی جائزے اور تنقیدی مباحثوں جیسے محور کے گرد گھومنا چاہئے جبکہ ہمارے نظام تعلیم میں سوال کرنے کی ممانعت اوّل تا آخر درجے کسی نہ کسی صورت رائج ملتی ہے۔ طلبہ کو قومی و صوبائی اور علاقائی مسائل سمجھنے اور اُن کے بارے میں برسرزمین حقائق کا تنقیدی جائزہ لینے کی تربیت و رغبت یا موقع نہ ملنا اپنی ذات میں بہت بڑا ’قومی المیہ‘ ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے نام پر کیا سکھا رہے ہیں؟ کیا پڑھا رہے ہیں اور آخر ہم جان بوجھ کر ایسا کیوں کر رہے ہیں کہ جس سے ذہنیت و اہلیت اور طلبہ کی شخصیت وسیع ہونے کی بجائے محدود ہو رہی ہے اور طلبہ میں تنقیدی و تخلیقی صلاحیتیں پیدا نہیں ہو رہیں یا اُن کی پرورش اور خاطرخواہ حوصلہ افزائی نہیں ہو پا رہی؟ اگر اِن سوالات کا جواب مل گیا تو پاکستان پر طاری جمود اور سماجی و اخلاقی اقدار سے متعلق بحرانوں و مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔ تعلیم ہر شعبہ ہائے زندگی میں نظم و ضبط اور سماج کی ہر سطح پر اخلاقی بلندی و کردار سے بھی ظاہر ہونی چاہئے۔نصابی تعلیم کے ساتھ تکنیکی شعبوں کی مہارت بھی ضروری ہے بالخصوص اُن سبھی تکنیکی شعبوں کی تربیت جو عصر حاضر میں زیراستعمال ٹیکنالوجی اور مستقبل کی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) پر مبنی ٹیکنالوجی (ڈیٹا سائنس) سے ہے۔ اگر پیشہ ورانہ تعلیم کو محدود اور غیر معیاری سانچے (اسلوب) سے نکال کر اِس کے فروغ سے متعلق وعدوں کو پورا کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئے۔ ہنر مند افرادی قوت ہی کسی قوم کا وقار اور اُس کے ہاں سرمایہ کاری کے مواقعوں میں اضافہ کرتے ہیں لیکن سردست تعلیمی بندوبست کو ہر خاص و عام کے لئے یکساں اور معیاری بنانے کے لئے سوچ بچار کا عمل وہیں سے شروع کرنا ہوگا جہاں سے اِس کے تانے بانے ٹوٹے تھے حقیقت اس بات کو اُجاگر کر رہی ہے کہ تعلیم کے ساتھ اگر تربیت و ہنر‘ تخلیقی و تنقیدی صلاحیت نہ ہو تو تدریس کا عمل تن تنہا کسی طالب علم اور معاشرے میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے سات دہائیوں پر محیط شعور و آگاہی یعنی تعلیمی سفر میں درس و تدریس کے شعبے پر کئے گئے تجربات کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔