بحران کا ذمہ دار کون ہے 

یہاں تو شہر میں روز کے نرخ نامے ترتیب پا رہے ہیں۔آٹا کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔عام آدمی کی حالت اتنی بری ہے کہ اندر اندر آنسو بہہ رہے ہیں۔اگر سڑکوں پر آہ و زاری نہیں کرتا توکیا ہوا۔وہ منظر کس کو بھول سکتا ہے کہ ایک آٹے کی سرکاری بوری کو حاصل کرنے کے لئے تین بندے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔جس کے ہاتھ میں زور سے تھامی ہوئی بوری موجود ہے وہ نہیں دینا چاہتا۔ اس کو دو بندے گرا کر اس سے یہ بوری ہتھیانا چاہتے ہیں۔اس قسم کے اور مناظر بھی  ہیں جو سوشل میڈیا پر جاری ہوئے ہیں۔ جن کولوگ دیکھ دیکھ کر افسردہ ہیں۔بہت مردوں کے عین بیچ  خواتین بھی موجود ہیں۔ہاتھ میں نوٹ تھام رکھے ہیں۔ مگر آٹے کے ٹرک پر سے آٹے کی بوری لینے میں ناکام ہیں عورتیں تو چھوڑ مردوں تک کو اپنا ہوش نہیں۔ان تمام کی نگاہیں آٹے کی بوری پر ہیں جو ٹرک میں کھڑے اہلکار نے ہاتھوں میں تھام رکھی ہے۔حالات کس طرف کو جا رہے  ہیں کہاں جا کر رکیں گے۔کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں۔گھر میں ہانڈی پکانا تو دوبھر ہے۔بس اب چھولے کلول ہی لائیں گے۔دو تھیلیاں جس کا جی چاہے کلول کھائے کوئی چھولے کھا لے۔یا تو ٹماٹر مرچ آدھ کلو چالیس تک مل جاتے ہیں۔ان میں سبز مرچیں ڈال کر دو ایک انڈوں سے مکسچر بنائیں اور نوش فرمائیں۔فی الحال تو یہی علاج ہے۔آگے دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔مگر جو ہوگا ضرور بہتر ہوگا۔کیونکہ بڑوں نے سر جوڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔ہم کہتے ہیں کہ سفید پوشی کا بھرم رہ جائے۔سفید پوش تو گئے کام سے۔یہ درمیانہ طبقہ ہی بہت پریشان ہے۔یہ مڈل کلاس والے تو دل کا حال بھی کسی سے کہہ نہیں پاتے۔ اندر اندر اپنے آپ کو کھائے جاتے ہیں۔بجلی ہے تو مہنگی۔ ہاتھ میں بل تھامے ہوئے قریب کے بجلی آفس کے چکر لگا رہے ہیں۔ افسر سے کہتے ہیں کہ بل کو قسطوں پر کر دو۔مگر فرمان جاری ہوتا ہے دو قسطیں ہو سکتی ہیں۔مگر بجلی کے ریٹ جو روزبروز مہنگے ہو رہے ہیں۔اور ساتھ گیس  بھی ناپید ہے۔اس کے ساتھ پٹرول بھی مہنگا۔پشاور کے قرب و جوار کے شہروں میں آٹا بحران کے خلاف ریلیاں نکل رہی ہیں۔ اس حوالے سے موثر اقدامات کی  ضرورت ہے۔نیچے کے تاجروں کے پاس کیا آپشن ہے کہ وہ آٹا مہنگا نہ کریں اور تندوروں پرروٹی مہنگی نہ ہو۔ حال تو سب کا خراب ہے تاہم ہمارے معاشرے میں جو طبقہ زیادہ تباہ حال ہے وہ یہی دیہاڑی دار مزدور ہے۔ جس کے بارے میں سرکار نے سخت ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ ان کو ایک خاص معاوضہ روز کے حساب سے دیا جائے مگر اس پر عمل خال خال ہو رہا ہے، اکثر کو کم معاوضہ پر کام کے لئے بلایا جاتا ہے۔پھروہ مجبور ہے کہ کام کرے وگرنہ تو شام کو وہ بچوں کے لئے گھرمیں کچھ نہ لے جاسکے گا۔جن کی تنخواہیں مہینہ وار لگی بندھی ہیں ان کو تو پتا ہوتا ہے کہ مہینہ بھر کے بعد مجھے رقم مل جائے گی مگر وہ کہ جن کوپتا نہیں کہ وہ گھر سے روزگار کے لئے نکلے ہیں کام کاج کا معاوضہ تو دور کی بات جانے ان کو روزگار بھی ملتا ہے کہ نہیں۔پھر چھولے روٹی کون سی سستی ڈش ہے۔پہلے تو کچھ نہ بن پڑے تو چلو چھولے روٹی پر گزاراکرلیتے مگر یکسرخالی ہاتھ اس قابل نہیں کہ ان میں بچوں کی خوراک ہو ان میں روپیہ ہو جس سے کام تو چلایا جا سکے۔بس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔