مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی نشری تقاریر نہ صرف ان کی زندگی کی تجربات کا نچوڑ ہیں بلکہ ادبی لحاظ سے بھی ان کی اہمیت مسلمہ ہے، ان کی تحریروں سے کافی لوگ مستفید ہوچکے ہیں بالخصوص طلباء اور نوجوانوں نے ان کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کی ہے اور ان کی روشنی میں انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘اشفاق احمد ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ان دنوں میرا پوتا‘ جواب بڑا ہوگیا ہے‘ اسکی ماں نے کہا کہ تمہاری اردو بہت کمزور ہے تم اپنے دادا سے اردو پڑھا کرو وہ انگریزی سکول کے بچے ہیں‘اس لئے وہ زیادہ اردو نہیں جانتے خیر! وہ مجھ سے پڑھنے لگا اردو سیکھنے کے دوران میں وہ کچھ اور طرح کے سوالات بھی کرتا ہے‘پرسوں مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ دادا! یہ آمدورفت جو ہے‘ اس میں عام طور پر کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟(اس نے یہ لفظ نیانیا پڑھا تھا)۔ اب اس نے ایسی کمال کی بات کی تھی کہ میں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا پھر اس نے مجھ سے کہا کہ دادا! کیا نفسیات کی ایسی کوئی کتاب ہے‘ جس میں آدمی کو پرکھنے کے اچھے سے اور آسان سے طریقے ہوں؟ تو میں نے کہا کہ بھئی! تمہیں آدمی کو پرکھنے کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟ اس نے کہا کہ پتہ تو چلے کہ آخر مدمقابل کیساہے؟ کس طرز کا ہے؟ جس سے میں دوستی کرنے جارہا ہوں‘ یا جس سے میری ملاقات ہورہی ہے میں اس کو کس کسوٹی پر لٹمس پیپر کے ساتھ چیک کروں میں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کو چیک کرنے کی ضرورت نہیں‘ لیکن تم ایسا چاہتے ہیں ہو تو ظاہر ہے علم نفسیات میں بہت ساری ایسی کتابیں ہیں۔لیکن وہ ساری کی ساری اتنی ٹھیک نہیں جتنی ہمارے ہاں عام طور پر سمجھی جاتی ہیں ہماری استاد تو ہماری تائی تھی میں نے پہلے بھی اس کے بارے میں آپ لوگوں کو بتایا ہے‘لیکن آپ میں سے شاید بہت سے لوگ نئے ہیں اور ان کو’تائی‘ کے بارے میں پتہ نہ ہو‘ جسے سارا گاؤں ہی ’تائی‘ کہتا تھا بڑے کیا‘ چھوٹے کیا‘سبھی وہ ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ تیلی جو میری پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے ان کی بیوہ تھیں ہماری تائی تیلن تھی تیل نکالتی تھی اور کچی گھانی کا خالص سرسوں کا تیل بیچتی تھی سارے گاؤ ں والے اس سے تیل لیتے تھے خود ہی بیل چلاتی تھی‘بڑی لٹھ جو بہت مشکل ہوتی ہے‘بیلوں سے وہ اکیلی نکال لیتی تھی‘یہ تمام مشکل مراحل وہ خود طے کرتی تھیں‘میں جب اس سے ملا تو اس کی عمر 80برس کی تھی میں اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا‘ لیکن مجھے اس تائی کی شخصیت نے متاثر بہت کیا وہ اتنی خوش مزاج‘اتنی خوشی عطا کرنے والی اور خوش بختی کا سامان مہیا کرنے والی تھی کہ جس کاحساب نہیں“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ تجربے کی اہمیت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں، عقل مند وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں اور اپنے لئے راستہ آسان بنا لیتے ہیں۔