موسمیاتی تبدیلی: افسانوی حقائق




کرہئ ارض کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے متعلق خبردار کرتے ہوئے ماہرین زمین کو ایک ایسا ”گرم سیارہ“ قرار دے رہے ہیں‘ جس کے ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ قدرت کی طرف سے نہیں بلکہ زمین کے باسیوں کی طرف سے ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ انسان جس شاخ پر بیٹھا ہے‘ اُسے نہ کاٹے۔ توجہ طلب ہے کہ گزشتہ آٹھ برس میں دنیا کے زیادہ سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات میں گرمی دیکھی گئی ہے جو تباہ کن نتائج کے ساتھ ہمارے سیارے کو متاثر کر رہی ہے۔ پیرس میں یورپی موسمیاتی مانیٹر کے مطابق سال دوہزارسولہ عالمی سطح پر اب تک ریکارڈ پر سب سے زیادہ گرم تھا۔ گزشتہ سال (دوہزاربائیس کے دوران) ریکارڈ کیا گیا دنیا کا اوسط درجہ حرارت ماضی کے مقابلے زیادہ رہا اور یہ وجہ تھی کہ مختلف ممالک میں تباہ کن واقعات پیش آئے جن میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں تین ماہ گزرنے کے باوجود بھی سیلاب کا پانی ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرآب رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان میں زرعی پیداوار پہلے ہی فی ایکڑ عالمی تناسب سے کم تھی لیکن سیلاب کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان زرعی معیشت رکھنے والے علاقوں کا ہوا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں سیلاب متاثرین بے گھر ہیں اور تین ماہ سے زائد عرصے سے یہ سیلاب متاثرین عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں جہاں بیماریوں‘ وباؤں اور اموات کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ گزشتہ برس کی طرح اِس سال (دوہزارتئیس) بھی متوقع ہے کہ موسم گرما سے پاکستان سمیت کئی مقامات متاثر ہوں۔ جب کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو اِس کی وجہ سے برفانی تودے پگھلتے ہیں۔ حال ہی میں ’انٹارکٹک‘ قطبی کے مرکز میں درجہ حرارت 17.7سینٹی گریڈ سے کچھ زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر موسمیات کے ماہرین نے رواں برس بھی گرمی کی شدید لہر آنے کی پیشگوئی کی ہے۔ کرہئ ارض کا درجہئ حرارت بڑھنے کی وجوہات میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج گلوبل وارمنگ کا بنیادی محرک ہے۔ جب تک صنعتی ترقی کے زعم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسوں کا اخراج جاری رہے گا اُس وقت تک کرہئ ارض کا درجہئ حرارت بڑھتا رہے گا۔ توجہ طلب ہے کہ ایک سال کے دوران کرہئ ارض کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اضافہ 417پارٹس فی ملین تھا جو بیس لاکھ سال میں فضائی آلودگی کی بلند ترین سطح ہے۔ میتھین ایک ہزار پارٹس فی ملین سے زیادہ ہے جو آٹھ لاکھ برس میں کبھی بھی اِس قدر نہیں دیکھی گئی اور یہ خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں خوفناک ہیں اور اگر اِنہیں خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی تو اِس سے کرہئ ارض کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگا اور خدانخواستہ ہم ایک ایسی صورت حال تک پہنچ جائیں گے جہاں زمین پر زندگی بسر کرنا ممکن ہی نہیں رہے گا۔ پہلے ہی ایسی پیشگوئیاں کی جا چکی ہیں کہ آنے والے برسوں میں دنیا کے کئی علاقے اِس قدر گرم ہو جائیں گے کہ وہاں انسانی زندگی بسر کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو موسمیاتی تباہی کے حوالے سے زمینی حقائق کا انکار کر رہے ہیں جیسا کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اِن جیسے دیگر دائیں بازو کے رہنماؤں نے ”آب و ہوا کی تبدیلی“ کو افسانہ قرار دیا ہے لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ اِس مبینہ افسانوی حقیقت کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ کی بقاء حقیقی خطرات سے دوچار ہے۔ موسمی تغیرات کے سبب ہر سال ہزاروں اموات اور مالی نقصانات ہو رہے ہیں۔ مستقبل قریب کا موسمیاتی منظرنامہ کتنا مختلف اور کتنا شدید ہوگا‘ اِس کا تصور کرنا بھی محال ہے لہٰذا دانشمندی اِسی میں ہے کہ ماحول سے غیرموافق طرز زندگی ترک کرتے ہوئے اُن تمام آسائشوں کو ترک کیا جائے‘ جو کرہئ ارض پر انسانی مستقبل (بقاء) کے لئے خطرہ ہیں۔