سوشل میڈیا کا بخار  

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ٰایک محترمہ گاڑ ی میں سوار جب گھر کے قریبی چوراہے کے سرخ اشارے پر رکیں تو ایک بھکاری کو خیرات دی‘بھکاری کی آنکھوں میں چمک اچانک بڑھ گئی‘جھٹ بول پڑا‘بیگم صاحبہ پہچانا؟محترمہ نے اسے غور سے دیکھا اور بولیں‘ نہیں بھئی!  کون ہو تم؟بھکاری اپنے پیلے دانت نکالتے  ہوئے بولا‘ بیگم صاحبہ!  میں آپ کا فیس بک فرینڈ ہوں“ جی ہاں،فیس بک کا بخار وبا ء کی صورت اختیار کر چکا ہے،اب چھوت کی اِس بیماری سے کوئی شخص محفوظ نہیں‘ایک ہی کمرے میں تین چار لوگ موجود ہیں مگر خاموشی ہے،چھوٹو موبائل پر گیم میں‘بڑا بھائی چیٹنگ،والدہ فیس بک اور والد صاحب ٹویٹر پر مصروف ہیں۔ابھی کچھ دیر قبل،بچوں کی والدہ نے اپنے  ”اِن بکس “سے بچوں کو میسج کر کے نیچے بلایا تھاکہ آجاؤ کھانا تیار ہے‘ ہم لوگ،دفاتر،سکولوں،کالجوں اور اپنے  اپنے کام کاج سے گھر،واپس آکربھی موبائلوں  پر مصروف رہتے ہیں۔جب سے سمارٹ فون آیا ہے لوگوں کی زندگی مزید اجیرن ہو گئی ہے۔ای میلز،ایس ایم ایس، وٹس اَیپ، سکائپ، وائبر فیس بک اور ٹیوٹرکے علاوہ مختلف گیموں اور ویڈیوز نے انسان کو خود سے بھی بیگانہ کردیا ہے۔مادی  دنیا کے حرصی ماحول نے پہلے ہی اسے تنہا اور اکیلا کر کے،اندر سے توڑ پھوڑ دیا تھاکہ رہی سہی کسر، سمارٹ موبائل فون نے پور ی کر دی ہے‘اگلے روز ہماری گاڑی کے آگے، ایک گدھا گاڑی والا جا رہا تھا۔اس نے  اپنی گدھا گاڑی پرگھاس لاد رکھی تھی اور خود گھاس کے ڈھیر پر لیٹا اپنے موبائل پر  ہنس ہنس کر محوِگفتگو تھا جبکہ گدھا اپنی مخصوص چال میں دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔اس کی رفتار کے سبب، ٹریفک رینگ رینگ کر آگے بڑھ رہا تھامگر اسے کچھ پرواہ نہ تھی کہ وہ اپنے گدھے کو ایسے موقع پر تیزی سے ہانکتا،تاکہ سڑک پر گاڑیوں کی طویل قطار نہ لگتی۔موبائل کے استعمال میں کئی مضحکہ خیز واقعات بھی سامنے آئے ہیں‘یہ کم بخت بعض اوقات، ایسے لمحوں میں بج اٹھتا ہے کہ انسان، پانی پانی ہو جاتاہے۔پچھلے رمضان میں نمازِ تراویح کے دوران میں، ہمارے مالی  کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہواکہ وہ کئی دن تک پریشان اور شرمندہ رہا‘ پتہ چلا کہ وہ جماعت کے ساتھ نما ز ادا کر رہاتھا۔ابھی سب رکوع میں گئے تھے کہ موبائل،شلوا ر کی زپ والی جیب میں بج اٹھا۔معصوم شخص نے موبائل کی رِنگ ٹیون بھی عجیب و غریب رکھی ہوئی تھی؛ چٹیاں کلائیاں وے،چٹیاں کلائیاں وے‘مت پوچھیے کہ اس وقت اس کی کیا حالت تھی،شرمندگی کے سبب کئی دن تک مسجد کی طرف منہ ہی نہ کر سکا۔موبائل کا استعما ل مشکل نہیں مگر کئی افراد اس کا استعمال اچھی طرح نہیں جانتے تاہم موبائل رکھتے ہیں اور بعض اوقا ت سپیکر آن کر کے گفتگو کرنے لگتے ہیں۔جس سے کئی بد حواسیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ہمارے ایک بزرگ شاعر دوست کا قصہ سن لیجئے وہ اکثر موبائل سن کر بند کرنا بھول جاتے ہیں‘جس سے  انہیں خفت اٹھانا پڑتی ہے۔ایک رو ز وہ دو تین دوستوں کے ساتھ سفرمیں تھے کہ کسی لکھاری کا انہیں فون آگیا جو اپنے تازہ شائع شدہ مضمون کے بارے میں ان کے تاثرات لینا چاہتا تھا۔کچھ دیر گفتگو کے بعد شاعر صاحب نے اسے ٹال دیا اور اپنے تئیں فون بند کر دیا۔دوستوں نے فون کرنے والے کا پوچھا  تو بولے :  ”کیا بتاؤں یار!   ایک پاگل قسم کا لکھاری ہے، لاہور میں رہتا ہے، کسی ادبی رسالے میں اس کا مضمون چھپ جائے تو ہر کسی کو فون کر کے تاثر ات بھی پوچھتا ہے۔خر دماغ قسم کا رائٹرہے، بحث بہت کرتا ہے۔ریٹائر شخص ہے، سو اُس کے پاس بہت فضول وقت ہے۔میں نے بھی ٹال دیا ہے۔اکثر اس کی جھوٹی تعریف کرنی پڑتی ہے۔“ بات ختم ہوگئی مگر گھر پہنچ کر شاعر صاحب کو، اُسی لکھاری کا دوبارہ فون آگیا، لہجہ کافی سخت تھا۔ بولا  ”میں نے آپ کی وہ ساری باتیں سن لی تھیں جو سفر کے دوران آپ دوستوں کو بیان کر رہے تھے۔غالباًَ آپ فون بند کرنا بھول گئے تھے۔بہر حال اب آئندہ  میں کبھی آپکا وقت ضائع نہیں کروں گا۔“ شاعر صاحب نے بھی آہستہ سے کہا   ”اچھا‘اور پھر فون بند ہوگیا‘اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں۔نوجوان دوستوں میں تو فیس بک پر تصویر لائک نہ کرنے پر جھگڑا ہوجاتا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے،باخبر اور اَپ ڈیٹ رہ رہ کر ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں‘شاعر ادیب حضرات تو اس سلسلے میں کافی حساس ہیں۔اگر آپ کسی دوست کی پوسٹ پر کمنٹ نہیں کرتے یا صرف لائیک کرتے ہیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔تو مرا حاجی بگویم،من تیرا حاجی بگووالا معاملہ زور پکڑ چکا ہے۔غزل،شعر،جملہ،تصویر،پسند آئے نہ آئے،آپ واہ واہ کرتے رہیں گے تو آپ کی دوستیاں تازہ دم رہیں گی۔ورنہ آپ فیس بک پر بھی تنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس وقت سوشل میڈیا پر نئے نئے لکھاری بطور شاعر بہت مشہور ہیں۔ وہ ہر جگہ اپنا پرچم خود اٹھائے کھڑے نظر آتے ہیں۔  وٹس اَیپ،ایس ایم ایس ہو یا فیس بک،  اپنے ساتھ شام منانے کی خبر میں خود کو نامور اور عالمی سطح کے شاعر کے طور پر فخرسے لکھتے ہیں۔ایسی خود نمائی کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا لیکن اگر آپ اس عادت پر کسی کو ٹوکیں گے تووہ آپ سے ناراض ہو جائے گا۔ انکسار اچھی عادت ہے، ہمیں تو اپنے ایک دوست کا اپنی شاندار تصویر کے ساتھ لکھا یہ کیپشن ہمیشہ پسند آتا ہے ”فقیر گل پاک و ہند مشاعرے کی صدارتی غزل پڑھتے ہوئے“یہ انکسار اور عاجزی ہمیں اتنی بھا گئی ہے کہ ہم نے اگلے ہفتے شائع ہونے والے اپنے شعری مجموعے کا نام ہی ”عاجزانہ“  رکھ دیا ہے۔اسی عاجزانہ سے شعر آپ کی نذر:
 مبہم علامتوں میں مری عمر کٹ گئی
 اب آکے اُس لغت کا کنایہ ہوا ہوں میں