پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی۔ اگر سب کچھ حسب قانون چلتا تو مردم شماری کا یہ عمل ہر 10 سال بعد دیکھنے میں آتا لیکن 71 برس کے دوران اب تک ہوئی چھ مرتبہ (1951ء‘ 1961ء‘ 1972ء‘ 1981ء‘ 1998ء‘ 2017ء) مردم شماری تاخیر کے علاوہ اِس کے نتائج کبھی بھی جامع اور کبھی بھی ملک کے تمام سیاسی و سماجی حلقوں کے قابل قبول نہیں رہے۔ ساتویں مردم شماری کے موقع پر ’قومی ادارہ برائے شماریات (pbs.gov.pk)‘ نے اعلان کیا ہے کہ مردم شماری مارچ (دوہزارتیئس) میں شروع اور اپریل (دوہزارتیئس) میں مکمل ہوگی جس کے اخراجات ”34 ارب“ روپے ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ 2017ء کی مردم شماری پر ”17 ارب روپے“ خرچ ہوئے تھے۔ اِس مرتبہ (2023ء کی) مردم شماری کو ماضی سے مختلف اور جامع بنانے کے لئے جو 3 بنیادی تبدیلیاں (اصلاحات) کی گئی ہیں اُن کے مطابق 1: مردم شماری کے کوائف ڈیجیٹل آلات کی مدد سے موقع پر (گوگل میپ کی وساطت سے) محفوظ کئے جائیں گے اور اِس مقصد کے لئے ”ایک لاکھ چھبیس ہزار“ ٹیبلٹس خریدے گئے ہیں۔ 2: مردم شماری کے عمل میں غیرملکیوں کو بھی شمار کیا جائے گا اور 3: مردم شماری کے ساتھ کسی فرد یا خاندان کے اقتصادی کوائف (اکنامک ڈیٹا) بھی جمع کئے جائیں گے۔مردم شماری کی ڈیجیٹلائزیشن حیرت انگیز فیصلہ ہے۔ اگر ڈیجیٹل آلات سے ملک کے ہر فرد اور ہر غیرملکی شہری (مہاجر) کو شمار کرنا ممکن ہے جن کا شمار 23 کروڑ سے زیادہ ہوگا تو 12 کروڑ ووٹرز کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ کیوں قابل عمل نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے بھاری اخراجات (چونتیس ارب روپے) کی مدد سے آئندہ مردم شماری کا انعقاد بروقت ممکن ہوگا۔ یہ بات اِس لئے اہم ہے کیونکہ 1998ء کے بعد مردم شماری کرنے میں 19 سال لگے تھے اور اُنیس سال بعد کی گئی مردم شماری اعدادوشمار سے زیادہ تنازعات کا مجموعہ تھی اگرچہ حکام کو اس عمل کو مؤثر طریقے سے انجام دینے پر سراہا گیا تھا لیکن کچھ سیاسی جماعتوں نے اعداد و شمار کی صحت پر سوالات اٹھائے اور خاص طور پر کراچی میں لوگوں کی نمایاں طور پر بڑی تعداد سے محروم رہنے اور مردم شماری کے فارم میں متعدد علاقائی زبانوں کو شامل نہ کرنے پر تنقید کی گئی۔ مردم شماری پر ماضی کے اعتراضات و تحفظات اور خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کیونکہ اِس مرتبہ مردم شماری کے فارموں کے ابتدائی جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ تمام علاقائی زبانوں کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا۔ وفاقی ادارہئ شماریات کی طرح قومی آبادی کے کوائف ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کے پاس بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ نادرا نے ’ڈیجیٹل مردم شماری‘ کا خیرمقدم کیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کاغذ کی بجائے کمپیوٹرائزڈ طریقے سے کوائف جمع کرنے سے غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ اِسی طرح افراد کو شمار کرنے کے ساتھ اُن کا ’اکنامک ڈیٹا‘ جمع کرنے سے ’بنیادی تفہیم‘ حاصل ہو گی کہ ملک کی کتنی فیصد آبادی‘ کن مخصوص حالات میں زندگی بسر کر رہی ہے اور اِس طرح کے اقتصادی اعداد و شمار سے غربت کی مکمل تصویر اُبھر کر سامنے آئے گی جسے مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر بہتر حکمت عملیاں وضع کرنے میں مدد دے گی۔ اس مرحلہئ فکر پر‘ کئی دیگر پہلوؤں پر بھی غور ضروری ہے مردم شماری کے اعدادوشمار صاف و شفاف اور غلطیوں سے پاک ہونے چاہیئں۔ تمام قومی زبانوں اور خواتین‘ معذور یا خواجہ سراؤں کا شمار یقینی بنایا جائے۔ گزشتہ عام انتخابات میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی نے شکایت کی تھی کہ ان کی درست گنتی نہیں کی گئی۔ اُمید ہے کہ اِس طرح کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی مردم شماری کرنے کے 2 طریقے ہوتے ہیں۔ ایک کو ’ڈی جور (De-jure)‘ اور دوسرے طریقے کو ’ڈی فیکٹو (De-fecto)‘ کہا جاتا ہے۔ اِس مرتبہ مردم شماری ’ڈی جور طریقے‘ کے مطابق ہوگی جس کا مطلب ہے کہ جو شخص عرصہ 6 ماہ سے جہاں مقیم ہوگا اُسے وہیں پر شمار کیا جائے گا۔ یوں اندازوں اور تخمینوں پر مبنی مردم شماری نہیں ہوگی جس سے چھوٹی قومیتوں میں خدشات جنم لیتے ہیں۔ اب اگر کوئی ’ہندکووان‘ کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہروں یا ڈیرہ اسماعیل خان و چترال کے دور افتادہ گاؤں میں بھی رہے گا تو اُس کا شمار بطور ایک اکائی یعنی ’ہندکووان‘ ہی ہوگا۔ پشاور میں مرکز رکھنے والی ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ نے ’ڈیجیٹل مردم شماری‘ کا خیرمقدم کیا ہے اور اِس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ اِس مرتبہ کسی علاقے میں آبادی کی درست کثافت اور آبادی کی زیادہ جامع (مکمل) تصویر ابھر کر سامنے آئے گی جس سے قومی و صوبائی مسائل حل کرنے کے علاوہ سیاسی و انتخابی منصوبہ بندی میں بھی مدد ملے گی تاہم مردم شماری کا عمل کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس کی مکمل تکمیل ممکن ہوتی ہے کیونکہ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی موسمی حالات کی وجہ سے کئی علاقوں میں آمدورفت (لاجسٹک) کی رکاوٹیں حائل ہوں گی۔ بہرحال ملک کو درپیش چیلنجوں کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کے لئے قومی مردم شماری ’انتہائی اہم و ضروری مرحلہ‘ ہے اور اِس مشق کا صرف جوش و جذبے سے آغاز ہی نہیں بلکہ تندہی سے تکمیل اور توجہ سے انجام بھی ضروری ہے۔