اب تو دھوپ تلے بیٹھنے کا بھی مزا نہیں رہا۔ جب تک جنوری کا مہینہ چل رہا ہے یونہی چل چلاؤ رہے گا۔دو ایک دنوں سے سردی نے نیا پانسہ پلٹا ہے۔کچھ روز قبل تو معلوم ہو رہا تھا کہ سردی بس آئی گئی ہو گئی۔کیونکہ دھوپ نے اپنی کرنوں کو ماچس کی تیلیاں بنا کر ان کے ساتھ جسموں کو جلانا شروع کر دیا تھا۔مگر گاہے موسم نے جونہی انگڑائی لی تو یک دم سے ٹھنڈی ہوا کا راج ہوا۔لوگوں نے چادریں لے کر بازاروں میں گھومنا شروع کر دیا۔اب تک یہی حالت ہے کہ دھوپ میں بھی بیٹھو تو سردی سے جسم کانپنے لگتا ہے۔کیونکہ ہوا کی ملاوٹ سے دھوپ کو بھی گرما گرمی دکھلانے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جب دھوپ میں بھی ٹھنڈلگے تو بندہ کہاں جائے۔ دھوپ میں بارش کے نظارے بھی دیکھ رکھے ہیں اور یاروں نے اس کیفیت پر شعر بھی لکھ چھوڑے ہیں مگر دھوپ میں سردی لگنا بھی عجیب نظارہ ہے۔جمعرات او رجمعہ کو تو ٹھنڈی ہو ائیں چلیں۔ اس قدر کہ بازاروں میں شہری دونوں ہاتھوں کو سینے پر اُلٹا سیدھا باندھے اپنے حساب سے خود کو موسم کی یخی اور ہوا کی کڑواہٹ سے بچانے کی کوشش میں تھے۔ کسی نے مفلر اور کسی نے موٹی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ہاتھوں پر دستانے چڑھے تھے اور جسم و جاں اندر اندر کانپ رہے تھے۔ خزاں کی ہوا نے پھل پھول پتوں کو اکھاڑ کر زمین پر پٹخ دیا تھا۔ شاخیں سر سبزی کو اترن سمجھ کر پھینک چکی ہیں۔ خالی اور سوکھے ٹانٹے یہ شاخیں ہوا کے زور درختوں پر جھول رہی ہیں۔مگر جو کاروں والے ہیں وہ اس ٹریفک کے رش میں اگر بائیک پر گھر سے نکلنا چاہتے تھے تو وہ وہیں دہلیز میں کھڑے رہ گئے۔ کیونکہ تیز ہوا نے ان کو واپس دھکیل دیا تھا۔بائیک چلانے والوں کی تو اپنی برداشت ہے۔ وہ جیسا بھی موسم ہے یخ بستہ ہوا جتنی کاٹ ڈالنے والی ہو انھوں نے نکلنا ہوگا۔مگر جن کے پاس آپشن ہو کہ بائیک یا کار تو وہ اپنی برداشت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ وہ بائیک نہیں چلا سکتے۔ ٹھٹھرتے ہوئے جسم اور بجتے ہوئے دانت لے کر بندہ سودا سلف لینے کو گھر سے باہر گلی میں دکاندار کے پاس بھی جائے تو اس سے جایا نہیں جائے گا۔ ایسے میں کوئی کیونکر موٹربائیک پر سوا رہوگا۔ ویسے بائیک والوں کا پسندیدہ موسم گرمی کاہے۔ جب ہوا اچھی لگے‘ساحلو ں پر تو ویسے بھی ہوا تیز ہوتی ہے خواہ کوئی بھی موسم ہو اور کوئی بھی مہینہ ہو مگر ہوا کی اس قسم کی تیزی نے تو وہاں بھی ان کو پریشاں حال کر دیا تھا۔ان کے دانت بجے بدن کانپ اٹھے۔گزارنے والوں کے دن نہیں گزر رہے۔ یادوں کو آنے سے کون روک سکا ہے۔بڑے موٹے اور اونچے دروازوں اور لوہے کی کھڑکیوں سے ہوکر ہوا خاص دل کو چیر کر اس میں داخل ہو رہی تھی۔اسی لئے تو ناصر کاظمی کے خوبصورت شعر یاد آئے”جب ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے۔پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے“۔ پتوں کی پازیب اس لئے کہ سوکھے پتے جو ان دنوں شاخوں سے ڈھلک چکے ہیں۔ وہ کسی باغ یا کہیں کیاری یا پگڈنڈی پر پڑے ہوں او راس پر سے انسان گزرے تو اپنی مخصوص آواز سے کڑکڑاتے ہیں۔ ”پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں۔ رُت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے“۔ موسم بھی البیلا ہو اور اوپر سے نیاری شاعری ہو تو سرور و لطف اپنی جگہ الگ سا ذائقہ دینے لگتے ہیں۔”پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں۔ پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے“۔”پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا۔بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے“۔دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا۔جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے“۔ان دنوں دیواروں پر سے دھوپ کا ڈھلنا یک گونہ افسوس کا عالم ہوتا ہے کہ ان یخ بستہ اور ککر ہواؤں کے چلن میں جیسی بھی سہی مگر لائٹ بجلی کے ایک ہیٹر کا سا سماں پیدا کرتی ہے۔بندہ فارغ ہو تو دھوپ کے سائبان کے تلے بیٹھے ہوئے دن گزار لیتا ہے اور چارپائی کو دھوپ کی گرمی کی وجہ سے چھاؤں میں کھینچنا نہیں چاہتا۔یہ لہر چند روز سے ہے اور چند روزہ ہے۔پھر پھر مارچ کے آخر میں رمضان نے شروع ہوجانا ہے۔ سو ان روزوں میں گرمی کی وہ شدت نہیں ہوگی۔ یہ لہریں آتی جاتی ہیں۔کبھی وقت کے اس سمندر میں سکوت ہوتا ہے اور کبھی تلاطم برپا ہونے لگتا ہے۔