علاج کی سہولیات

میڈیکل سائنسز نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب شاذہی کوئی بیماری ایسی رہ گئی ہو کہ جو لاعلاج ہو۔دنیا کے زیادہ تر حصوں میں اوسط عمر میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہے کہ بھلے  مریض کس قدر مہلک عوارض میں مبتلا کیوں نہ ہوں  علاج دستیاب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض بیماریوں کے علاج مہنگے ہوتے ہیں اور وہ صرف امیر افراد کے بس میں ہوتے ہیں  کہ وہ  مہنگے ترین ہسپتالوں میں مہنگے ترین ڈاکٹروں سے علاج کر وا سکتے ہیں البتہ غریب اگر کسی ایسی بیماری کا شکار ہوجائے جس کا علاج مہنگا ہو تو اس کیلئے یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔صوبے میں صحت کارڈ کے ذریعے علاج کا پروگرام شاید ان منصوبوں میں سے ایک ہے جس سے غریب افراد خصوصی طور پر استفادہ کررہے ہیں اور جن مہنگے ترین ہسپتالوں تک ان کی رسائی نہ تھی وہ اب ان کی دسترس میں ہیں تاہم اس حوالے سے خصوصی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے کہ ان کو صحت کارڈ سہولیات کی فراہمی میں بعض نجی ہسپتال خاطر خواہ تعاون نہیں کر رہے۔دنیا کے کئی ممالک میں صحت کے حوالے سے معاملات پر ہی حکومتیں بنتی ا ور گرتی ہیں۔ جس  پارٹی کے پاس عوام کی صحت کے حوالے سے بہترین پروگرام ہوتا ہے وہ پارٹی عوام کی تائید سے حکومت میں آسکتی ہے۔ جس پارٹی کے پاس عوام کی صحت کے حوالے سے موثر پروگرام نہیں ہوتا وہ پارٹی عوام کی تائید حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ دیکھا جائے تو اس حوالے سے فرنگی بڑی ہوشیار قوم ہے جب انگلستان کی اشرافیہ نے اپنے ہمسایہ ملک فرانس  میں ہونے انقلاب میں وہاں کے انقلابیوں کے ہاتھوں فرانس کے امرا ء کی درگت بنتی دیکھی تو اس کو اپنی سلامتی کی فکر دامن گیرہوئی چنانچہ جب وہاں لیبر پارٹی دوسری جنگ عظیم کے بعد بر سر اقتدار آئی تو اس نے انگلستان میں نیشنل ہیلتھ سروس NHS کے نام سے تمام لوگوں کیلے مفت طبی نظام رائج کیا جو دنیا بھر میں اتنا مقبول ہوا کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ انگلستان کا سوشل ویلفئیر سٹیٹ کے قیام کی طرف  یہ پہلا اقدام تھا جسے بعد میں ناروے سویڈن ڈنمارک نے بھی اپنایا اور کینیڈا نے بھی۔ اس ملک کے عام آدمی کی یہ آرزو ہے کہ NHS کی طرز پر من و عن ہیلتھ سروس کو وطن عزیز میں بھی رائج کر دیا جائے تاکہ اس ملک کا ہر باسی اس سے برابر کا استفادہ کر سکے۔ پر یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا  کہ ملک میں حصہ بقدر جثہ ٹیکس عائد ہو۔اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنی حیثیت اور دولت کے مطابق ٹیکس دینے لگے تو یقین کریں کہ ملکی خزانے بھر جائیں گے اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کیلئے فنڈز کی کمی کی شکایت کبھی نہ ہوگی۔اب کچھ بین الاقوامی امور کی بات ہو جائے جہاں یوکرین پر روسی میزائل حملے میں ہلاکتوں کے بعد برطانیہ نے یوکرین کو ٹینک فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔خبروں کے مطابق یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ڈنیپرو میں روسی میزائل حملے میں 30 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ہفتے کو روسی حملوں کے کچھ ہی گھنٹوں بعد برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ یوکرین کو روسی جارحیت سے نمٹنے کے لئے 'چیلنجر ٹو نامی ٹینک فراہم کرے گا۔دوسری جانب روس اور یوکرین کا شمالی ہمسایہ ملک بیلاروس پیر سے مشترکہ جنگی مشقیں شروع کر رہے ہیں۔ دوسری طرف  امریکہ یوکرینی فوجیوں کو پیٹریاٹ میزائل سسٹم کی تربیت دے  رہا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ یوکرین جنگ کا جلد خاتمہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔یوکرین کی مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل ویلری زلوزنی نے کہا کہ روس نے ہفتے کو 33 کروز میزائل داغے جن میں سے 21 کو مار گرایا تھا۔فضائیہ کی کمان نے کہا کہ اپارٹمنٹ کی عمارت کو نشانہ بنانے والا میزائل Kh-22 تھا جسے روس کے کرسک علاقے سے لانچ کیا گیا تھا، لیکن یوکرین کے پاس اس قسم کے ہتھیاروں کو روکنے کے قابل نظام نہیں ہے۔روس کی وزارتِ دفاع نے یوکرین میں میزائل حملوں کی ذمے داری قبول کی لیکن ڈنیپرو کی رہائشی عمارت پر حملے کا ذکر نہیں کیا۔ عمارت کے بعض رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی اسٹرٹیجک فوجی اہمیت نہیں ہے۔اتوار کو برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ روس موسمِ بہار 2023 کی بھرتیوں کے لیے عمر کی حد کو 27 سے بڑھا کر 30 کر دے گا، یوں روسی افواج بھرتیوں میں کم از کم 30 فی صد اضافہ کر سکیں گی۔روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ وہ اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔امریکہ اور برطانیہ سمیت نیٹو اتحاد کے تمام ممالک یوکرین کو روس کے مقابلے میں مضبوط کرنے کی کوششوں میں ہیں تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں۔ روس کے پاس جس طرح کے ہتھیار ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس جنگ میں یوکرین کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس کی ذمہ داری روس کی بجائے امریکہ پر عائد ہوتی ہے جس نے یوکرین کو روس کے قریب نیٹو اڈہ بنانے کیلئے کوششیں کی اور اس کا نتیجہ یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں نظر آیا۔